تحریر /فاطمہ منیر
آج کے دور میں نفسا نفسی کا ایک ایسا عالم ہے کہ ہر شخص دل و دماغ میں اپنے مفاد کی ہوس لیے آپ کا ہمدرد بنا بیٹھا ہے. منافقت کا لبادہ اوڑھے آپ سے خیر خواہی کے وعدے کر رہا ہے۔
حقیقت سے آشنا کوئی نہیں اور انصاف کا پرچم ہر کسی نے سر پر اٹھا رکھا ہے۔
اصل میں انتشار پھیلانے میں سر گرم عمل ہیں اور ظاہر یہ کیا جا رہا ہے کہ ہم تو اتحاد کے داعی ہیں۔
وإذا قيل لهم لا تفسدوا في الأرض قالوا إنَّما نحن مصلحون(11 البقره)
“اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔
ألا إِنَّهُم هم المفسدون ولكن لا يشعرون (البقره 12)
” خبر دار ! حقیقت میں یہی لوگ فساد کرنے والے ہیں لیکن انہیں شعور نہیں”
اسی کی ایک مثال، آپ کے گوش گزار کروں تو شاید وضاحت میں آسانی رہے۔
افسوس کے ساتھ گذشتہ روز، ہمارے ملک میں ایک تعلیمی ادارے میں زیادتی کا ایک واقعہ رونما ہوا. جس کی مکمل حقیقت کیا ہے مجھے اور آپ کو معلوم نہیں۔میرے خیال سے یہ کام انتظامیہ اور پولیس کا ہے کہ وہ حقیقت معلوم کر کے مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں. ہمارا کام تو عبرت پکڑنا ہے۔
مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ الٹ نظر آ رہا ہے۔
اس واقعے کو گلی گلی، بازار، بازار ایسے اچھالا جا رہا ہے جیسے بہت بڑے اعزاز کی بات ہو. اس کام میں سر فہرست سوشل میڈیا پیش پیش ہے۔
یہ قوم کی بیٹی کی عزت کا معاملہ تھا. اس میں نہایت محتاط رہنے کی ضرورت تھی. اس کیس کی نزاکت کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔
مگر ایسا نہیں ہوا، ہر کسی نے موقعے سے فائدہ اٹھایا. تخریب کاری ایسی کی گئی کہ کسی کے چینل کے سبسکرائبر بڑھ گئے، کسی کی ریٹنگ پیک پر پہنچ گئی. کسی کو داد و تحسین اکٹھی کرنے کا موقع مل گیا۔
جس کا جو دل چاہ رہا ہے واقعے کو اپنی مرضی کے رنگ اور شکل میں ڈھال کر، لوگوں کو خوش کرنے کیلئے پر کششِ اور جاذب نظر مواد شامل کر کے بتاتا چلا جا رہا ہے۔اور دیکھنے والے بھی مفت کا لگا تماشہ دیکھتے چلےجا رہے ہیں۔ان کو اپنی حدود کیوں یاد نہیں۔اسی لیے ایک رکشہ ڈرائیور سے لے کرچیف جسٹس تک سب اپنی مرضی کے قانون بنا کر بیٹھے ہیں. دوسروں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بیٹھےدرندے تو پہلے ہی موقع ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔
رہی سہی کسر ادارے کے طالب علموں نے پوری کر دی. احتجاج کا نام دے کر اسی ادارے کو توڑا جہاں وہ خود زیر تعلیم ہیں اپنے ہی قابل اور معزز اساتذہ کو بے عزتی اور طنز کا نشانہ بنایا۔
بات محض ایک عمارت کی توڑ پھوڑ کی ہوتی یا صرف ایک استاد کی عزت و آبرو کی ہوتی تو ماننے میں آتی ہے. اس واقعے نے پورے ملک میں بد امنی پھیلائی. اس نام کے ہر ادارے کو توڑا گیا، اس نام کے ادارے میں پڑھانے والے ہر استاد کو غلط نظریہ سے پرکھا گیا، اس نام کے ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے ہر طالب علم کو طنز کا نشانہ بنا کر بغیر وجہ سے شرمندہ کیا گیا۔
کیا یہ ہماری اخلاقی، شرعی اور معاشرتی اقداریں ہے؟
کیا انصاف اسی کا نام ہے کہ معصوم اور بے گناہوں کو بھی چکی میں پیسا جائے. اور اصل مجرم کا پتا تک نہ ہو اور نہ مظلوم کی خبر ہو۔
طلبا و طالبات کو چاہیے تھا پر امن احتجاج کرتے۔پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دیتے۔مگر انہوں نے روڈ بلاک کر کے نہ صرف عوام الناس کے لیے دشواری پیدا کی بلکہ پولیس کی تفتیش میں بھی مزید رکاوٹ کا باعث بنے۔
تعلیم تہذیب سکھاتی ہے۔
ایک ایسا ملک جس کی بنیاد ہی لا الہ الا اللّٰہ ہو۔
اس ملک کی بیٹیاں ننگے سر سڑکوں پر نکل کر چیختی چلاتی نظر آئیں۔
کیا ان بچیوں کو اپنی دین و دنیاوی حدود کا علم نہیں؟
ان سب حالات میں ہم ملک پاکستان کے حکمرانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طریقے یا جس انداز سے بھی ممکن ہو بے مہار سوشل میڈیا کو لگام دی جائے۔تاکہ وطن عزیز میں سوشل میڈیا کی انصاف کی آڑ میں بے حیائی کو فروغ دینے کی تمام تر کوششوں کو کچل دیا جائے۔