محمدحسین الحاج گوھر
فاطمہ نام۔
نصب نامہ: اس طرح ہے
“فاطمہ بنت خیز بن خالد اکبر بن وہب بن صالبہ بن وائل بن عمرو بن شیبان بن مہاری بن فحر”
والدہ کا نام: “امیمہ بنت ربیعہ تھا” جو بنی کنانہ سے تھی
نکاح: ابو امرو رضی اللہ عنہ بن حفظ بن مغیرہ سے نکاح ہوا
دعوت حق کی ابتدا ہی میں شرف اسلام سے بہرہ ور ہو گئیںاور ہجرت کے دورِ اول میں دوسری خواتین کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
10 ہجری میں حضرت علی کرم اللہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل میں ایک لشکر لے کر یمن روانہ ہوئے۔اس لشکر میں حضرت فاطمہ کے شوہر ابو عمرو رضی اللہ عنہ بن حفص بھی شامل تھے۔ روانگی سے پہلے انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو طلاق دے دی وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم عدت کا زمانہ امِ شریک رضی اللہ عنہ کے ہاں گزارو
لیکن حضرت ام شریک رضی اللہ عنہ کے گھر ان کے عزیز و اقارب کے علاوہ دوسرے مہمان بھی بکثرت آتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حکم میں ترمیم فرما کر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ تم عدت کا زمانہ ابن ام مکتوم کہ ہاں گزارو۔ انہوں نے تعمیل ارشاد کی جب عدت کہ زمانہ پورا ہو گیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ،حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ،حضرت ابو جہل رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا حضرت فاطمہ کا خیال تھا کہ سرور عالم خود انہیں شرف ازدواج بخشیں گے لیکن مصلحتِ خداوندی اس میں نہ تھی۔چنانچہ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے اپنے نکاح ثانی کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “معاویہ مفلس ہے ابوجہل سخت مزاج ہے تم اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لو”
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کچھ متامل ہوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تمہیں کیوں عذر ہے؟ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اسی میں تمہاری بھلائی ہے”۔
اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ارشاد کی تعمیل میں حضرت اسامہ بن زید سے نکاح کر لیا۔وہ بڑے جلیل القدر صحابی تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس قدر عزیز رکھتے تھے کہ وہ “حُبُ النَبِی” صلی اللہ علیہ وسلم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے۔
صحیح مسلم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کے بعد میں لوگوں کے نزدیک قابل رشک بن گئی۔
24 ہجری میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی تو مجلس شورہ کے اجتماع میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت قیس کے مکان ہی میں ہوتی تھیں چونکہ وہ نہایت معاملہ فہم اور صاحبِ رائے خاتون تھی اس لیے مجلس شوری کے اراکین ان سے مشورہ لینا بھی مناسب سمجھتے تھے۔
45 ہجری میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس کے بعد انہوں نے تا زندگی دوسرا نکاح نہیں کیا اور اپنے بھائی ضہاک بن قیس کے پاس رہنے لگیں۔یزید بن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب انہیں عراق کا گورنر مقرر کیا تو ان کے پاس کوفہ چلی گئیں اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
صحیح مسلم میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک خاص واقعہ بیان کیا گیا ہے
وہ یہ کہ
” مروان بن الحکم کے عہد حکومت میں حضرت سعید بن زید کی صاحبزادی کو ان کے شوہر عبداللہ بن عمرو بن عثمان نے طلاق دے دی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رشتے میں ان کی خالہ ہوتی تھیں اس لیے انہوں نے بتقضائے ہمدردی ان کو کہلا بھیجا کہ تم میرے گھر آ جاؤ۔ مروان کو علم ہوا تو اس نے قبیصہ کو ان کے پاس بھیجا اور دریافت کیا کہ “آپ ایک متعلقہ خاتون کو اس کا زمانہ عدت پورا ہونے سے پہلے گھر سے کیوں نکالتی ہیں؟۔”
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مجھے ایام عدت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے پاس گزارنے کی اجازت دی تھی اس لیے میں نے بھی اپنی بھانجی کو عدت پوری ہونے سے پہلے اپنے پاس بلا بھیجا۔”
مروان نے ان کی بات کی کوئی وقت نہ دی اور متعلقہ خاتون کو اپنے گھر میں ہی عدت گزارنے کا حکم دیا۔
علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے سیرت عائشہ رضی اللہ عنہ میں اس واقعے کے بارے میں لکھا ہے کہ اسلام میں حکم ہے کہ متعلقہ عورتیں عدت کے دن اپنے شوہر کے گھر میں گزاریں۔ اور اس کے حکم کے خلاف صرف ایک فاطمہ بنت خیر کی شہادت ہے کہ ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی اور وہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر میں جا کر رہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں اسی واقعے کی سند سے ایک معزز بات نے اپنی متعلقہ بیٹی کو شوہر کے یہاں سے بلوا لیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے اس عام حکم میں اسلام کی مخالفت پر سخت اعتراض کیا۔ مروان اس زمانے میں مدینہ کا گورنر تھا اس کے علاوہ بھی جا کے تم سرکاری حیثیت سے اس معاملے میں دخل دو اور اس مسئلہ کی نسبت فرمائی کہ اس واقعے سے اہم استدلال جائز نہیں واقعہ یہ تھا کہ “فاطمہ رضی اللہ عنہ کے شوہر کا گھر شہر کے کنارے پر تھا اور رات کو جانوروں کو خوف رہتا تھا۔اس بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی تھی۔
{بحوالہ صحیح بخاری باب قصہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت قیس}
روایت نگاروں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی صراحت نہیں کی۔ البتہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے خلافت مکہ کے زمانے تک زندہ تھیں۔
اربابِ سہر نے لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سورۃ اور سیرت کے ہر لحاظ سے صفت موصوف تھیں۔ اور نہایت علم والی اور باکمال خاتون تھی مہمانوں کی تواضع کرنے میں ان کو دلی راحت ہوتی تھی۔
ایک دفعہ ان کے ایک شاگرد حاضر خدمت ہوئے انہوں نے چھوہاروں اور ستونوں سے ان کی تواضع کی۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت قیس سے 34 احادیث مروی ہیں۔ ان کی روایات حدیث میں حضرت قاسم بھی محمد رحیم اللہ، ابو سلمہ رحمہ اللہ، سعید بن مسیب رحمہ اللہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ،سلمہ بن یسار رحمہ اللہ اور شابی رحمہ اللہ جیسے اکابر تابعین شامل ہیں۔
صحیح مسلم اور ابوداود کی ایک حدیث جو علماء میں حدیثِ جساسا کے نام سے شہرت رکھتی ہے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت قیدی سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ:
“ایک مرتبہ میں مسجد نبوی میں گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو کر ممبر پر تشریف فرما ہوئے۔ اور حسب عادت مسکرا کر فرمایاکہ:”سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں جمع کیا؟”۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: “اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں”.
ارشاد ہوا کہ:”میں نے کسی طرح کی نصیحت و ترغیب کے لیے تمہیں جمع نہیں کیا بلکہ ایک واقعہ سنانے کے جمع کیا ہے۔ جو تمیم داری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے،وہ پہلے عیسائی تھے اللہ نے انہیں اسلام سے سرفراز کیا وہ کہتے ہیں کہ میں نے جہاز میں سوار ہو کر سمندر کا سفر اختیار کیا،میرے ساتھ قبیلہ جذام اور لخم کے 30 آدمی تھے۔ اثنائے سفر میں طوفان آگیا اور جہاز ایک ماہ تک سمندری لہروں سے ادھر ادھر بھٹکتا رہا۔ آخر ایک جزیرے کے ساحل کے ساتھ جا لگا۔ ہم جزیرے میں اترے تو عجیب ہیئت کی ایک عورت ملی جس کے بہت لمبے لمبے بال تھے۔ ہم نے اس سے پوچھا:”تم کون ہو؟” تو اس نے کہا کہ:” میں جساسا (یعنی مخبر ہوں) جو دجال کو خبریں پہنچاتی ہوں،تم لوگ سامنے والی دیر میں جاؤ،وہاں دجال کو دیکھو گے ہم اس دیر میں پہنچے تو وہاں ایک غیر معمولی قدو قامت کا آدمی دیکھا جو زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا ہم نے اس کوہ پیکر آدمی سے پوچھا:” کہ تم کون ہو؟” ۔اس نے کہا:”پہلے تم بتاؤ تم کون ہو؟”۔اور یہاں کیسے پہنچے۔
ہم دوسرے ملک کے رہنے والے ہیں ہمارا جہاز سمندری طوفان میں پھنس گیا اور لہروں نے اسے جزیرے کے قریب لا پھینکا ایک عجیب الہیت جساسا نے ہمیں تمہاری طرف بھیج دیا۔
وہ: اچھا تو یہ بتاؤ کہ بیسان کے نخلستان میں پھل آتا ہے یا نہیں؟۔
ہم: بیسان کی نخلستان میں برابر پھل آرہا ہے۔
وہ: یاد رکھو وہ وقت بھی آنے والا ہے جب بیسان میں کھجور کے درخت پھل نہیں دیں گے۔ اچھا یہ بتاؤ بحیرہ طبریہ میں بھی پانی موجود ہے یا خشک ہو چکا ہے؟۔
ہم: اس میں تو پانی بافراط موجود ہے۔
وہ: وہ وقت آنے والا ہے کہ اس کا پانی خشک ہو جائے گا۔یہ بتاؤ کہ کیا چشمہ زغر میں پانی آرہا ہے اور لوگ اس سے اپنے کھیت سینچ رہے ہیں؟۔
ہم: ہاں چشمہ زغر میں پانی آرہا ہے اور لوگ اس سے اپنے کھیت سیراب کر رہے ہیں۔
وہ: اچھا یہ بتاؤ کہ امیوں کے نبی نے ظاہر ہو کر کیا کیا ہے؟
ہم: وہ اپنی قوم پر غالب آئے اور لوگوں نے ان کی اطاعت قبول کر لی ہے۔
وہ:ہاں ان کے لیے یہی بہتر تھا۔
اب میری نسبت بھی سن لو میں مسیح دجال ہوں۔مجھے جلد ہی یہاں سے نکلنے کی اجازت ملے گی۔ میں روئے زمین میں گھوم جاؤں گا اور دنیا کو کوئی مقام ایسا نہ ہوگا۔ جہاں میں 40 دن کی مدت میں نہ پہنچ جاؤں البتہ مکہ اور طیبہ دو شہروں میں مجھے دخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔جب میں ان شہروں میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا تو ایک شمشیر لیئے کھڑا فرشتہ مجھے اس سے روک دے گا۔
یہ واقعہ بیان فرما کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آسان مبارک تین مرتبہ ممبر پر مارا اور فرمایا یہی طیبہ ہے یہی طیبہ ہے (یعنی مدینہ منورہ)”