تحریر: بنت اکرم
ڈاکٹر عافیہ صدیقی آہ، مشرق کی وہ بدنصیب بیٹی جسے اپنوں کی جفاؤں نے نہ زندوں میں چھوڑا نہ مردوں میں، وہ بد نصیب بیٹی جس کے گناہ کے کھاتے میں وہ ناکردہ گناہ بھی شمار کر دیے گئے جو اس نے کبھی کیے ہی نہ تھے وہ بیٹی عافیہ جسے وحشی بھیڑیوں نے عبرت کا نشان بنا دیا،آخر اس کا جرم ہی کیا تھا؟ اس سے کن نا کردہ گناہوں کی پاداش میں سولی پر چڑھنے کا حکم دیا گیا ہاں یہ سزا تو سولی پہ چڑھنے سے بھی بڑی ہے کہ وہ ان وحشی درندوں کی قید میں پابند سلاسل ہے جنہیں یہ تک معلوم نہیں کہ احترام انسانیت کیا چیز ہے؟ جن کا انسانیت سے دور دور تک واسطہ ہی نہیں۔
اج 21 سال گزر گئے تیرے لیے میرے لیے ہم سب کے لیے کہنے کو یہ 21 سال ہے لیکن اس بوڑھی ماں کے کرب کا اندازہ کون کر سکتا ہے کہ جس نے 21 سال کے طویل عرصے سے اپنی پھولوں جیسی بیٹی کو نہیں دیکھا۔ ان معصوم بچوں کے دکھ اندازہ کون کر سکتا ہے؟ جنھوں نے ممتا کا پیار ماں کے ہوتے ہوئے بھی نہ پایا۔
وہ بہن کس کے کندھے پر سر رکھ کر اپنے دکھ درد بیان کرے جس کی ایسی قابل بہن کو ظالموں نے اس سے دور کر دیا۔
کوئی تو جواب دے 21 برس کا طویل عرصہ کم تو نہیں بوڑھی ماں راہ تکتی ہے کہ جانے کب میری بیٹی میرے سینے سے آ لگے۔
کوئی تو بات کرتا کوئی تو آگے بڑھتا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ڈکٹیٹر کے بعد سے دوسری حکومت اقتدار میں آگئی لیکن اس خاموشی کو کیا نام دیں؟ ان 21 برسوں میں فوزیہ صدیقی نے کس کس صاحب اقتدا کے دروازے بر دستک نہیں دی، کس کس کے ترلے نہیں لیے کہ عافیہ بے قصور ہے آخر اس کا قصور تو بتلاؤ۔
بعض حکمرانوں نے اقتدار میں آتے ہی اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ عافیہ کی رہائی کا معاملہ اٹھائیں گے۔ لیکن تاحال اس معاملے پہ خاموشی کو کیا نام دیں،اس بے حسی کے رویے کو کس نام سے پکاریں، گزرے 21 برسوں نے انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور ہیومن رائٹس کے دعوے کرتی این جی اوز نے عافیہ کے لیے کیا کیا؟ اقوام متحدہ سب ممالک کو ساتھ لے کر چلنے کا دعوی کرنے والا ادارہ اس نے عافیہ کی رہائی کے لیے کیا کیا؟کچھ تو پتہ چلے، کوئی ایک حقیقت ہی ایسی ہو،جس سے دل کو تھوڑی تسلی مل جائے کہ ہاں ہم میں آج بھی قومی غیرت موجود ہے، ہم بیٹیوں کی عزت کے رکھوالے صرف باتوں سے ہی نہیں بلکہ اس بات کو عمل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔
کوئی تو محمد بن قاسم، معتصم باللہ جیسا غیرت مند بن کر سامنے آتا، جو عافیہ کو اس قید سے رہائی دلاتا کیا اس پاکباز بیٹی کا قصور صرف یہ تھا کہ خدائے واحد الاحد کی ماننے والی تھی یا پھر یہ کہ وہ محمد مصطفی صلی اللی علیہ وسلم کی نام لیوا تھی۔ وہ جو صرف نام کی مسلمان نہ تھی، بلکہ کرداروعمل سے ایک سچی مسلمان داعیہ تھی اور جس نے دس برس امریکہ جیسے مادر پدر آزاد معاشرے میں رہ کر بھی شادی کے لیے باریش دین دار ہمسفر کو چنا، ایسا کیا الگ تھا اس میں کہ امریکہ کی آنکھ میں وہ کھٹکنے لگی ایسے کون سے نرالے ڈھب دیکھ لیے گئے جو اس نیورو سرجری میں ڈاکٹریٹ کرنے والی قابل ترین ڈاکٹر میں دکھائی دے رہے تھے۔
آستین کا لہو انصاف چاہتا ہے، اس انصاف کون دے گا؟ ان معصوم بچوں کا کیا قصور جن کا بچپن خوف و حراس کے نوکیلے پنجوں نے نگل لیا، صاحبانِ اقتدار اعلیٰ سے گزارش ہے خدارا! کچھ تو خیال کریں، احساس کریں، اپنوں کے دکھوں پر مرہم لگائیں نہ کہ ڈکٹیٹر کی طرح تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر پہچانے جائیں۔
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے میرا ایک ہی سوال ہے، کہاں گئے وہ محمد بن قاسم اور معتصم باللّٰہ جیسے غیرت مند مسلمان جو اپنی ایک بیٹی کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے مدد کو جا پہنچتے تھے، کیا ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے کسی ایک میں بھی وہ غیرت دینی باقی نہیں رہی۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی ان سفاک ھاتھوں کو کاٹنے کا عظم نہیں کیا جو امت محمدیہ کی بیٹیوں کے پیرہن اور ردائیں تار تار کرتے رہے ہیں۔
آہ!کاش کہ میں نے اپنی پیاری عافیہ کے دکھوں کو اپنج پلکوں سے چن لیتی، کاش کہ عافیہ صدیقی کے بچوں سے جا کر یہ کہنے کی ہمت خود میں پاتی کہ اے بچو! تمہاری ماں بے قصور ہے وہ ضرور ایک دن تمہارے پاس لوٹ آئے گی، جب عافیہ کو قید کی سزا سنائی گئی تب اربابِ اقتدار اعلیٰ نے بس ایک بیان دے کر اپنا دامن جھاڑ لیا، ہاں وہ ایک جملہ جذبات نہیں صرف ایک بیان ہی تو تھا:
” امریکہ عافیہ کے معاملے میں پاکستانی قوم کے جذبات سمجھے”۔اس کے بعد حکومتیں بدلیں،سیاسی وفاداریاں بدلیں لیکن نہ اس حکومت نے عافیہ کے لیے کچھ کیا اور نہ اب کچھ کرنا چاہتی ہے، عافیہ کے گناہ گوشوارہ ایسا نہیں کہ اسے زندہ لاش بنا دیا جائے مگر یہ صاحب بہادر کے کرم فرماؤں اور آستین کے خنجر نما اپنے لوگوں کی مسیحائی کا انوکھا انداز ٹھہرا”۔
میں نے جب عافیہ صدیقی کے بارے میں پڑھا،مجھے اس تہذیب یافتہ معاشرے کی تنگدلی اور جہالت پر حیرت دو چند ہوئی جس نے ابو غریب اور گوانتا نامو بے جیسے زمینی دوزخ بنائے، اور دعوی پھر بھی انسانیت سے محبت کا کرتا ہے ڈھنڈورا پھر بھی پار سائ کا پیٹتا ہے، آخر یہ کیسی پارسائی ہے؟ کیسی انسانیت ہے؟ جو انسان کو انسان نہ رہنے دے۔ انسان سے اس کا سارا حسن چھین لے۔
ہاں حقیقت ہے کہ جب عافیہ صدیقی کی والدہ عصمت صدیقی کو ان کی خوبصورت بیٹی کی تصویر جاری کی گئی تو عصمت صدیقی نے تصویر کو دیکھ کر پہچاننے سے ہی انکار کر دیا کہ یہ اس کی عافیا نہیں ہو سکتی وحشی درندوں نے اس پاکباز بیٹی کے ساتھ اس قدر شرمناک رویہ برتا وہ انسانیت کے دعویداروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔
وہ ڈاکٹر عافیہ جس نے اپنی ذہانت اور لیاقت کی بنا پر اعزز حاصل کیا, اور جس کا گناہ فقط اتنا تھا کہ وہ وحدانیت کی قائل تھی، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نام لیوا تھی، اس عافیہ سے ان 21 برسوں میں انسانی تہذیب کے علمبرداروں نے جو سلوک برتا کسی طور انسانیت کے زمرے میں نہیں آتا اور ظلم عظیم تو یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار ہمارے اہل اقتدار تھے۔ مشرف صاحب نے بڑے فخر کے ساتھ اپنے سوانح حیات میں یہ بیان لکھا کہ ہم نے پاکستان سے دہشت گرد گرفتار کر کے سی آئی اے کے حوالے کیے۔
اے اللّٰہ! دھرتی کا سینہ اس زیادتی پہ شق کیوں نہ ہوا۔ خدا کی لاٹھی واقعی بے آواز ہوتی ہے آج وہ لوگ بھی ان گنت رسوائیوں کے توق پہنے اپنے اپنے کردار کو تاریخ کا حصہ بنا چکے ہیں۔ دختر فراموش آمر جس نے محافظ وطن کا لبادہ اوڑھ کے نہ جانے کتنے برس عوام الناس کو بیوقوف بنایا وہ خود بھی آج دیدہ عبرت نگاہوں کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں تمام حکومتوں سے درخواست ہے۔ خدارا! اس بدنصیب بیٹی کی رہائی کے لیے کچھ کریں وہ جسے یہ تک معلوم نہیں کہ جانے کس کس کی گناہوں کے کھاتے اس نازک سی عافیہ کے نازک سے کندھوں پر دھڑ دیے گئے؟ ماضی کی بگڑی ہوئی روایات کو سدھارنے کے لیے حکومت کو اپنے پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
ہم سے پہلے والوں نے جو کرنا تھا کر لیا اپنا وقت گزار لیا اب ہماری باری ہے ہم مانتے ہیں جمہوری راستے پھر بند ہیں،مسائل بہت گمبھیر ہیں،مایوسیاں بہت زیادہ ہیں، اور شاید دکھ بھی برداشت سے زیادہ ہیں۔ لیکن بات پھر وہی کے حالات چاہے جیسے ہی کیوں نہ ہو غیرت مند قومیں بیٹیاں تو کبھی بھی تاوان میں نہیں دیتیں ۔
کتنا ہی اچھا ہو کہ ہم دوسروں کی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھ سکیں۔ تاریخ میں اپنا نام اور مقام تھوڑا بہتر لکھوا لیں، ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جائے جنہوں نے غلطیاں کیں،پھر کیں، مگر پھر سنبھل گئے اور اپنے غلط فیصلوں کو صحیح فیصلوں سے بدل ڈالا۔
عافیہ صدیقی کو ہم بھول نہیں پاتے لیکن جوں جوں مارچ کا مہینہ قریب آتا جاتا ہے عافیہ کی یاد اور شدت سے حملہ آور ہوتی جاتی ہے، میرے بس میں ہو تو میں باطل کے عقوبت خانے میں جا کے عافیہ کو دلاسا دے کر آؤں، اے عافیہ،ہم تجھے بھولے نہیں بس کچھ مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔
اے پیاری عافیہ بہت سے ہونٹوں پر تیرے لیے پیار اور دعائیں ہیں مگر ڈر اور خوف نے ان کو روکا ہوا ہے، سب لوگ آگے بڑھ کر تیرے سر پہ پیار سے ہاتھ رکھنے پر تسلی کے دو جملے کہنے سے بھی ڈرتے ہیں تو خود ہی اپنا ماتھا آگے کر دے تاکہ انہیں کچھ تو تمہاری اور تمہارے جیسے ان گنت لوگوں کی مظلومیت کا احساس ہو جائے شاید تب ہی دلوں کی سختی کچھ کم ہو جائے، دلوں میں بیٹھا امریکی خوف کچھ کم ہو جائے،میں جانتی ہوں ان سب باتوں سے تیرا دکھ اور بڑھ جائے گا۔ لیکن اے بہن تجھے ان لفظوں میں تسلی دوں؟
لیکن ٹھہرو میں تجھے حوصلے کی ایک بات بتاتی ہوں، بے شک آج کا ظلم اور زیادتی کل مردہ جائے تو بھی اس کا درد نہیں مرے گا یہ بہت سوں کو جگانے کا باعث بنا رہے گا،یہ ظلم اور زیادتی کرنے والی قوم اور گروہ کو مارنے کے لیے باقی رہتا ہے، ان پہ غالب آنے کے لیے اکساتا ہے ان سے بدلہ لینے کے لیے نسلوں کی ہمت بندھاتا ہے، پرانے زخموں کا احساس دلاتا ہے، بس کبھی بھی یہ سوچ کر غمگین مت ہونا کہ ہم تجھے بھلا بیٹھے ہیں، کبھی نا امید نہ ہونا، ثابت قدم رہنا۔
یقینا اللہ ایمان والوں کا دفاع کرتا ہے، ہم ڈیڑھ ارب مسلمان اپنی پیاری سی بہن عصمت صدیقی کی پیاری بیٹی عافیہ کے لیے ہر دم دعا گو ہیں، اے اللہ ہماری عافیہ کو عافیت میں رکھنا، ہماری عافیہ تیرے حوالے،عافیہ کا تو ہی نگہبان۔