تحریر:اسماء تاثیر

حقوق العباد اللہ تعالی کے ہاں بہت اہمیت رکھتے ہیں حقوق اللہ سے تو بندہ توبہ کے ذریعے بری ہو سکتا ہے لیکن حقوق العباد کی ادائیگی سے اس وقت تک چھٹکارا ممکن نہیں جب تک قیامت کا وہ دن نہیں ا جاتا کہ جس دن کوئی کام نہیں ائے گا بلکہ نیکیوں یا گناہوں کے ساتھ فیصلے ہوں گے اللہ سبحانہ و تعالی کا ارشاد ہے
{اِنَّ اللّٰه يَأْمُرُكُم اَنْ تُؤَدُّو الاَمَانَات اِلٰي أَهْلِهَا.}
“اللہ تعالی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں واپس لوٹا دو۔”
قرض لینے میں تساہل برتنا ہمارے معاشرے میں عام سی بات ہو گئی۔ ہے قرض لینے والے بعض لوگ اس لیے قرض نہیں لیتے کہ وہ سخت ضرورت مند ہیں بلکہ بعض اپنی مادی عیش پرستی کو وسعت دینے اور دوسروں کی اندھی تقلید کرتے ہوئے نئی گاڑی گھر کا نیا سامان وغیرہ خریدنے کے لیے قرض کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور اکثر حالات میں ایسے لوگ قسطوں پر چیزیں خریدنے کی وجہ سے قسطوں کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں جبکہ قسطوں والے خرید و فروخت کی بہت سی شکلیں شبہ یا حرام سے خالی نہیں۔ بغیر شدید ضرورت کے قرض لینے میں جلد بازی کا نتیجہ بعد میں ادائیگی قرض میں ٹال مٹول یا دوسروں کے اموال ضائع کرنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
قرض لے کر واپس نہ کرنے کے برے انجام سے ڈراتے ہوئے نبی کریم نے فرمایا
((مَنْ اَخَذَ امْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ اَدَاَىَٔهَا اَدَّى اللّٰهُ عَنْهُ وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ اِتْلاَفَهَا اَتْلَفَهُ اللّٰهُ))
“جس نے لوگوں سے اس نیت سے قرض وغیرہ کی صورت میں مال لیا کہ بعد میں ادا کروں گا تو اللہ تعالی بھی اس کی طرف سے ادا کر دیتے ہیں یعنی قرض کی ادائیگی میں اس کی مدد کرتے ہیں اور جس نے ضائع اور ہڑپ کر جانے کی نیت سے لوگوں کا مال لیا تو اللہ تعالی بھی اسے ضائع کر دیتے ہیں۔”
ادائیگی خرچ میں تساہل برتنا بہت عام ہو چکا ہے اور لوگوں کی نگاہ میں یہ بہت معمولی سی بات ہے اللہ کے قرض کا معاملہ اللہ تعالی کے ہاں بہت اہمیت کا حامل ہے حتی کہ شہید بھی بہت سی خوبیوں اجر عظیم اور بلند مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود قرض کی عدم ادائیگی کے برے انجام سے محفوظ نہیں رہ سکتا اس کی دلیل نبی کریم ﷺ كا یہ فرمان ہے:
((سُبحَانَ اللّٰه مَاذَا اَنْزَلَ اللّٰه مِنَ التَّشْدِيدِ فِي الدَّينْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدهِ لَو أَنَّ رَجُلاً قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ ثُمَ اُحْيِيِ ثُمَ قُتِلَ ثُمَ اُحيِيِ ثُمَ قُتِلَ وَعَلَيهِ دَينٌ مَا دَخَلَ الجَنَّةَ حَتٰى يُقْضٰى عنه دَيْنُهُ))
“سبحان اللہ!قرض کے معاملے میں اللہ تعالی نے کس قدر زیادہ سختی نازل فرمائی ہے مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی آدمی اللہ کے راستے میں شہید کر دیا جائے پھر دوبارہ زندہ کر دیا جائے پھر شہید ہو جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شہید ہو جائے(تین مرتبہ شہادت کا مرتبہ پانے کے باوجود)اگر وہ مقروض ہو جب تک اس کا قرض ادا نہ کیا جائے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔”) یہ حدیث سننے کے بعد بھی قرض کی ادائیگی میں تساہل برتنے والے کیا اپنی جہالت سے باز آئیں گے یا نہیں؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *