تحریر:ام حفصہ
اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا
“گر تم شکر کرو گے،تو میں اور زیادہ دوں گا۔”
بے شک اللہ نے اپنے بندوں پر بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں ان سب میں سب سے بڑی نعمت “اسلام” ہے، اور یہ کیا ہی عظیم نعمت ہے، اس کے علاوہ بھی بے شمار نعمتیں ہیں، جنہیں ایک بندہ اپنی محدود عقل کی وجہ سے شمار نہیں کر سکتا، بلکہ حیران ہو جاتا ہے، اس کا حساب لگانا تو اللہ ہی کا کام ہے، اگر یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں تو پھر بندے کے لیے ضروری ہے کہ ان انعامات کی ہمیشگی پر حریص ہو۔اور نعمتوں پر ہمیشگی ممکن ہی نہیں جب تک شکرانِ نعمت نہ کی جائے،یعنی شکر ہی ایسی نعمت ہے جو دوسری نعمتوں کو ہمیشگی بخشتی ہے جس کا بیان وضاحت کے ساتھ اس قول میں آیا ہے۔
“شکر” ہمیشگی والی نعمت کا راز ہے جس نے شکر گزاری کی روش اختیار کی وہ کبھی نعمتوں کی فراوانی سے محروم نہ ہو اور شکر بہت قدر و منزلت والا کلمہ ہے۔ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے اور کفران نعمت سے منع کیا ہے اس نے شکر گزاروں کی تعریف کی ہے نیز ان کو اپنی خاص مخلوق میں شمار کیا ہے اور شکر گزاروں سے اچھے اجر کا وعدہ کیا ہے۔
جب کوئی شخص کسی نیکی کا برتاؤ یا سلوک کرتا ہے تو وہ رد عمل میں ممنونیت میں صرف اتنا کہہ دے کہ “جی شکریہ” تو مخاطب اس کا یہ جواب سن کر خوش ہو جاتا ہے اس کے دل و دماغ میں ٹھنڈک و طمانیت کا خوشگوار احساس ہوتا ہے۔
کسی کی عطا،مہربانی یا نیک سلوک و احسان پر شکریہ ضرور ادا کرنا چاہیے اس سے انسان کو کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں نقصان کچھ نہیں۔ ویسے ہر فرد کا یہ اخلاقی فرض بھی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اپنے خالق و مالک کا شکر بھی نہیں ادا کرتا۔”
ہمارے ہاں اگر کوئی شخص ہمارے کام آئے تو ہم اس کا ممنون ہو کر بار بار شکریہ ادا کرتے ہیں شکریہ، مہربانی،نوازش،کرم اور جزاکم اللہ وغیرہ جیسے الفاظ اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں اس کے مقابلے میں انسان اپنے خالق و مالک اللہ کریم کے احسانات تو شمار ہی نہیں کر سکتا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب “الفوز الکبیر” کے شروع ہی میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے۔
اس ضعف و ناتواں بندے پر اللہ کریم کی نعمتیں اس قدر ہیں کہ نہ تو ان کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں شمار کیا جا سکتا ہے، اگر بندہ دنیا اور آخرت میں فوائد و ثمرات اور بے بہا نعمتیں حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ مخلوق کا شکریہ ادا کرنے سے پہلے ہر دم اپنے خالق کی عطاؤں کا شکریہ ادا کرتا رہے۔”
اللہ تعالی فرماتے ہیں: اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ہرگز ان کو شمار نہ کر سکو گے بلاشبہ انسان بڑا ظالم اور ناشکرا ہے۔”(ابراہیم)
بعض اہل علم کے نزدیک شکر کرنے والوں کی دو قسمیں ہیں۔شکر عام۔ شکر خاص۔
1- شکر عام:
کھانے پینے پہننے اور جسمانی نعمتوں پر کرنا۔
2-شکر خاص:
توحید ایمان اور قلبی طاقت جیسی نعمتوں کا شکر کرنا۔
تقدیر پر راضی ہونا شکر کے حصول کا ذریعہ ہے،اسی پر خوش رہیے جو آپ کی قسمت پہ لکھ دیا گیا ہے جو کچھ آپ کو ملنا ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا،اور جو کچھ نہیں ملنا اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جو کچھ اللہ کی طرف سے آپ کو ملا ہے وہی آپ کے لیے سب سے بہترین ہے تو اس کے نتیجے میں آپ خوشگوار اور مطمئن زندگی بسر کریں گے۔
صحیح بخاری مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے عورتو! صدقہ اور استغفار زیادہ کرو کیونکہ جہنم میں میں نے تمہاری کثرت کو دیکھا ہے
انہوں نے پوچھا:
کیا وجہ ہے؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
زیادہ لعن طعن کہتی ہو اور خاوند کی ناشکری کرتی ہو۔”
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر خاوند کی ناشکری کا یہ حال ہے جو اصل میں اللہ کا دیا ہوا ہے تو اللہ کی نعمتوں کا شکر تر کرنے پر کیا ہوگا؟۔
انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“بے شک اللہ تعالی اپنے بندے سے اس بات پر راضی ہو جاتا ہے کہ کھانے کا لقمہ کھائے تو اس پر الحمدللہ کہے اور اگر پانی کا گھونٹ پیے تو اس کی تعریف کرے۔”
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن یا رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی باہر ہی کھڑے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: “اس وقت تم دونوں کو گھر سے کس چیز نے نکالا؟”۔
دونوں نے کہا: بھوک نے اے اللہ کے رسول!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے مجھے بھی اس چیز نے گھر سے نکالا ہے جس نے آپ دونوں کو نکالا۔ آؤ چلیں۔
تو وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل دیے یہاں تک کہ ایک انصاری صحابی کے گھر پہنچے تو وہ گھر پر نہیں تھے لیکن ان کی بیوی نے انہیں دیکھا تو عرض کیا اہلاً و سہلا ًخوش آمدید۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“فلاں کہاں ہے؟۔”
عورت نے جواب دیا:
ہماری لیے پانی لینے گئے ہیں اتنے میں وہ انصاری پہنچ گئے۔
جب اس انصاری صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو دیکھا تو پکار اٹھا:
الحمدللہ آج کے دن میرے مہمانو سے زیادہ باعزت مہمان کسی کے ہاں نہیں ہے۔
پھر جلدی سے گئے اور بہت سی کچی پکی اور تازہ کھجوریں لے آئے اور کہا ان کو تناول فرمائیں۔
اور خود چھڑی لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “دیکھو دودھ والا جانور نہ ذبح کرنا۔”
انہوں نے جانور ذبح کیا اس میں سے مہمانوں نے کھایا اور کھجوریں بھی کھائی اور جب سیر ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا۔
“اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے روز قیامت تم سے آج کے دن کی اس نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا تمہیں تمہارے گھروں سے بھوک نے نکالا،پھر تم یہ نعمت حاصل کر کے ہی لوٹ رہے ہو۔”
اللہ اکبر!!!
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ناشکری سے بچائے۔آمین۔