تحریر: نازمین عامر
دل مضطرب ہے ۔آنکھوں میں خوف،دکھ اور اذیت کے سائے ہیں ،ہر زور بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے ماں کا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔کہ بات ہی ایسی ہے۔کئی دنوں سے ایک نجی سکول کی طالبہ کے ساتھ سکول وین ڈرائیور یا گارڈ کی مبینہ زیادتی کا واقعہ گردش کررہا ہے ۔طلباو طالبات کا احتجاج اور پولیس کا لاٹھی چارج ،اور ارباب اختیار کا اس واقعے سے انکار معاملے کو مزید تشویشناک بنا رہا ہے ۔والدین ایک کرب میں مبتلا ہیں تعلیم جو بچوں کا بنیادی حق ہے ، کے حصول کی یہ قیمت ۔۔۔
اس احساس سے ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اگرچہ اس میں ابہام ہے کہ واقعی ہوا بھی ہے کہ نہیں مگر یہ بھی ایک اذیت ناک حقیقت ہے کہ اس طرح کے واقعات بڑھتے جا رہے۔
وطن عزیز بہت سے سنگین مسائل میں گھرا ہے
مگر خواتین خصوصاً بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے واقعات نے والدین بلکہ ہر درد دل رکھنے والے پاکستانی
کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔
خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات نئے نہیں ۔مگر سوشل میڈیا کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی اخلاقی پستی کا پول کھل گیا ہے ۔جس سے پورا معاشرہ خصوصاً والدین خوف اور تکلیف میں مبتلا ہیں ۔اور تعلیمی اداروں میں بچیوں کے تحفظ اور خود تعلیمی اداروں کی تقدیس پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں کیونکہ اس حوالے سے واقعات روزبروز بڑھتے جارہے ہیں ۔
ان واقعات کی تشہیر سے منفی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں کہ متاثرہ خاندان خود بھی بچی کے مستقبل کی وجہ سے اس کو چھپانا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے واقعات کو چھپانے سے مجرم کو کھلی چھٹی مل جاتی ہے اور وہ معاشرے میں دندناتا پھرتا ہے۔جیسے زینب کیس میں مجرم کئی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرچکا تھا ۔لاہور کی یہ بچی جو نجی سکول میں زیر تعلیم تھی کا تاحال معاملہ ابہام کا شکار ہے ۔پنچاب کی وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس کے مطابق یہ جھوٹی خبر ہے اور ایک سیاسی جماعت نے پھیلائی ہے۔اس نے صورتحال کو مزید گمبھیر کردیا ہے اور اس ابہام نے کئی سوال جنم دئیے ہیں۔مثلا
اگر یہ واقعی جھوٹا ہے تو کیا ملکی سیاست اس حد تک پستی میں گر گئی ہے کہ اب مخالف جماعت کو نیچا دکھانے کے لیے بچیوں کی عزتوں کو اچھالا جائے گا ؟
اور اگر پنجاب کی حکومت اس واقعے کو چھپانے کے لیے اس سے انکار کر رہی ہے تو یہ ایسامجرمانہ فعل ہے کہ جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کو اپنے منصب پر فائز رہنے کا حق نہیں ۔
بہرحال ہر دو صورتوں میں یہ معاملہ تشویشناک اور حساس ہے اور متعلقہ سکول کے طلباء وطالبات کا یہ مطالبہ کہ معاملے کی فوری تحقیقات کرائی جائیں ،بالکل حق بجانب ہے ۔
تاحال نجی سکول کے طلباء وطالبات میں شدید غم وغصہ ہے اور سکول کے مختلف شہروں کے کیمپس ان کے احتجاجی مظاہروں اور نعروں سے گونج رہےہیں اور حسب معمول پولیس اہلکار ان پر ڈنڈے برسا رہے ہیں ۔
عوام تو ابھی اس نامی گرامی پیر کی سزا ہی کی حسرت لیے منتظر ہے جس کی ہوس کا شکار ایک معصوم کلی بن کھلے مرجھا گئی۔اور ایک خبر کے مطابق بچی کے والدین نے درندے نما پیر کی ضمانت کی درخواست کی ہے۔اس کے پیچھے کہانی کیا ہے سب کو معلوم ہے ۔جو ایسے موقع پر ہمارے ملک میں طاقت ور کرتاہے۔
بچی کے والدین کو ڈرادھمکا کر اور پیسوں کا لالچ دیکر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔یہ ملک خداداد میں روایت بن گئی ہے اگر مجرم با اثر ہے،وڈیرہ ہے،چودھری ہے،بڑے سرکاری عہدے پر ہے تو مظلوم کو ڈرادھمکا کر اور کچھ رقم ہاتھ میں تھماکر اس کا منہ بند کر دیا جاتا ہے اور عدالت سے ضمانت یا بری کرواکر ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔سوال یہ ہے۔کہ اس گھناؤنے جرم کی روک تھام کیسے کی جائے ۔بحثیت والدین ،قوم اور حکمران ہی سب کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی ۔تب ہی اس صورت حال کے سیاہ بادل چھٹ سکتے ہیں ۔
خواتین اور بچیوں کی جان ، عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے سزاؤں کا عمل تیز اور سستا کرنا ہوگا۔تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے بلا تفریق اقدامات اٹھانے ہوں گے کیونکہ قوانین موجود ہیں مگر عمل ندارد ۔
میڈیا کو خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کو پیمرا کے قوانین پر اس حوالے سے سختی سے عمل کرنا ہوگا ۔سنسرشپ بورڈ کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوگی۔جوئے لینڈ،برزخ اور اس طرح دیگر حیا سوز مواد کی روک تھام کرنی ہوگی تاکہ معاشرے میں جنسی ہیجان انگیز ی کو مہمیز نہ ملے۔
اس کے علاؤہ والدین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ بچیوں کو خصوصاً اس حوالے سے تربیت دیں کہ وہ کسی بھی مرد سے اکیلے میں نہ ملے ۔چاہے تعلیمی ادارے ہو یا کوئی اور جگہ کسی بھی مرد کی طرف سے اگر کوئی قابل اعتراض حرکت دیکھیں یا محسوس کریں تو اپنے والدین یا سرپرست کو فوری طور پر آگاہ کریں ۔والدین اس حساس معاملے میں خاموش نہ رہیں کیونکہ اس سے صرف اس کی بچی متاثر نہیں ہوگی بلکہ یہ قوم کی بیٹیوں کا سوال ہے۔بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں ۔ان کی عزت قوم کی عزت ہے۔ان کے تقدس اور ناموس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کا کوئی دیا جلاتے جاتے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *