تحریر:اسماء تاثیر
حضرت سہل بن حنظلہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا
((مَنْ سَأَلَ وَعِندَهُ مَا يُغْنِيْهِ فَاِنَّمَا يَستَكْثِرُ مِنْ جَمَرِ جَهَنَّمَ قَالُوْا وَمَا الغَنِيَ الَّذِيْ لَا يَنْبَغِي مَعَهُ المَسْأَلَةُ قَالَ قَدَرُمَا يُغَدِّيهِ وَيُعَشِّيهِ))
“جس شخص نے بے نیاز ہوتے ہوئے گدا گر بن کر کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا وہ جہنم کے انگارے جمع کرتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ہے اللہ کے رسولﷺ اس بے نیازی کی حد کیا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے سوال کرنا منع ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس کے پاس دوپہر اور شام کا کھانا موجود ہو وہ غنی ہے۔”
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ جَاءَتْ يَومَ القِيَامَةِ خَدُوشًا أَؤ كَدُوشًا فِي وَجهِهِ))
“جو غنی ہوتے ہوئے بھی لوگوں سے بھیک مانگے وہ بھیک قیامت کے دن اس کے چہرے میں زخم بن کر ظاہر ہوگی۔”
بعض گدا اگر مسجدوں میں لوگوں کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی شکایات سناتے اور نمازیوں کے ذکر اذکار کا موقع خراب کرتے ہیں اور بعض جھوٹے کاغذات بنا کر من گھڑت قصے سنا کر جھوٹ بولتے ہیں اور بعض پیشہ ور سوالی تو اپنے خاندان کے افراد کو مختلف مسجدیں تقسیم کر دیتے ہیں کہ فلاں نے فلاں مسجد میں بھیک مانگنی ہے تو فلاںنے فلاں مسجد میں اور اس طرح وہ مختلف مسجدوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور بعد میں سب کو اکٹھا کر کے حساب کرتے ہیں کہ آج کتنا منافع ہوا حالانکہ وہ اس قدر کو نہیں ہوتے ہیں کہ ما سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا اور جب وہ مرتے ہیں تب ان کی جائیداد اور مال لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے متقی محتاج اور فقیر بھی ہیں کہ وہ شرم اور آفت کے مارے لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور نہ ہی اصرار کے ساتھ لوگوں سے بھیک مانگتے ہیں اور ان کی ظاہری بے نیازی کو دیکھ کر ان کی اصل حقیقت حال سے ناواقف انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ غنی ہیں اور تب ہی ان پر صدقہ خیرات کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔