ترجمہ:سید انوار احمد بل گرامی
فلسطینی بچوں پر مظالم کی اس رپورٹ کے بعد اسی تناظر میں دل تھام کر یہ خط بھی پڑھ لیجئے۔ کسی بھی صاحب دل کے لیے یہ بلا تبصرہ ہی کافی ہے۔ اس معصوم کو کیا معلوم تھا کہ وہ ایک مسلمان بچہ ہے اور ا سے ختم کرنے کے لیے یہ جرم ہی کافی ہے اگر اس بچے کو یہ علم ہوتا کہ آج کی دنیا میں امن پیار محبت آزادی اور حقوق انسانی کے الفاظ مسلمانوں کے لیے بے معنی ہیں کیونکہ وہ کمزور اور منتشر ہیں تو شاید وہ یہ خط لکھنے کی زحمت گوارا کیے بغیر ہی جنت کو سدھار جاتا۔
محترمہ ہیلری!
میں بے شمار زخموں سے چور ایک ہسپتال میں پڑا موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں اپنی اس چھوٹی سی عمر میں کسی بھی قسم کے جرم کرنے کے قابل ہی نہیں۔ مگر سزا مجھے ایک بڑے جرم کی سی مل رہی ہے۔ آپ کو یہ خط اس خیال سے لکھ رہا ہوں کہ آپ بھی ایک ماں ہیں اور آپ کی بھی ایک بچی ہے اور آپ شاید ان حالات اور کیفیات کو خوب سمجھ سکیں۔ جن سے میری ماں آج کل گزر رہی ہے۔ وہ میرے بستر کے قریب اس وقت بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہیں۔ مگر جب میری طرف نظر کرتی ہیں تو اپنی آنسوؤں کی لڑیوں کے درمیان مسکرانے کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔
گھر پر اگر کبھی میں گر پڑتا یا مجھے کہیں چوٹ لگ جاتی تو میری امی اس چوٹ پر پیار کرتی تو میں درد میں بہت کمی محسوس کرتا۔مگر یہاں یہ حال ہے کہ میری امی میرے سارے جسم کو بوسوں سے اور محبت سے ڈھانپ لیتی ہیں مگر میری تکلیف اور میرا درد میرے اس چھوٹے سے جسم کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جاتا ہے ۔قسم قسم کے ٹیوب میرے جسم کے مختلف حصوں ناک منہ اور پیٹ سے آکے اور جاکے مجھے اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔18 اپریل کو جب جنوبی لبنان کے قناکے قصبے میں اقوام متحدہ کی امن فوج کے مرکز پر اسرائیلی بموں کی بارش ہوئی تو مجھے قریب کے ہسپتال کے سرجری وارڈ میں بھاگم بھاگ پہنچایا گیا امی کا خیال تھا کہ اقوام متحدہ کے احاطے میں ہم لوگ محفوظ رہیں گے ان کا خیال غلط نکلا بموں سے کوئی نہیں چھپ سکتا۔
کچھ رضاکاروں نے مجھے ملبے سے نکالا اور دوسرے زخمیوں اور لاشوں کے ساتھ ایک ایمبولنس میں ڈال دیا۔میری امی بھی زخمی ہو گئی تھیں اور میرے ساتھ ہی گاڑی میں بٹھا دی گئیں۔ان کی نظر جو مجھ پر پڑی تو بے ہوش ہوتے ہوتے بچیں۔صرف چار برس کی عمر میں موت کو سامنے کھڑے دیکھنا بڑا مشکل کام ہے مگر چار برس کی عمر میں موت کے منہ میں چلے جانا تو اور بھی کٹھن ہے۔
ہسپتال کی کھڑکی سے درختوں پر چڑیاں چہچہاتی پھر رہی ہیں بہار کا موسم ہے۔ امی لبنان میں بہار کی آمد سے بہت خوش ہوتی تھیں۔ پھول کھلتے ،ہری ہری گھاس آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی، خشک اور تازہ ہوا فرحت بخشتی۔ امی خوش ہو کر کہا کرتی کہ میں ان کا چہیتا لڑکا ہوں۔ میری پیدائش پر وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتی تھیں۔کہا کرتی تھیں “تم میرے گھر کے چھوٹے مرد ہو تمہاری آنکھیں گہری چمکدار بادامی اور بال کالے ریشم جیسے ہیں۔”
اس بار بہار کے لیے میرے لیے خصوصی پروگرام بنا تھا۔ میرے والد پہلی بار مجھے قصبے سے باہر اپنے ساتھ لے جانے والے تھے۔ میں اس بات پر بہت خوش تھا کہ میرے ابا مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ اپنے ساتھ سفر پر لے جایا کریں۔ وہ اس دفعہ بیروت میرے چچا کے گھر جا رہے تھے۔ وہاں وہ میرا تعارف کراتے کہ دیکھو میرا بچہ کتنا شاندار ہے۔
مگر میرے خیال میں اب میرا واحد سفر اس دنیا سے میری امی کے کہنے کے مطابق خوبصورت اور درد و تکنیف سے بالکل خالی جنت کی طرف ہوگا۔ میں سوچا کرتا تھا کہ امی کے پاس رہنا ہی میری جنت ہے اور میرے لیے یہی کافی ہے۔ میں نے ہسپتال کے لوگوں سے کہا کہ مرنے سے پہلے میں اپنی چھوٹی بہن کو دیکھنا چاہتا ہوں مگر انہوں نے بتایا کہ وہ بم سے اس طرح جل گئی ہے کہ اس کا اپنے بستر سے ہلنا بھی مشکل ہے۔ میں بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا۔ ہم دونوں اسرائیلی بم کے برابر نشانہ بنے تھے۔ میرے ابا،ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بے ہوش پڑے ہیں کاش کہ وہ جلد ہوش میں آجائیں کہ کم سے کم ایک بار میں ان کو پھر دیکھ لوں۔
امن و آشتی تو ہر بچے کا پیدائشی حق ہے محترمہ ہیلری! برائے مہربانی مجھے اس کا جواب دیں کہ آخر کیا بات ہے کہ اسرائیلی بچوں کا امن و عافیت میں رہنا بہت ضروری اور اہم ہے۔ان کی زندگی کی بہت اہمیت ہے مگر عرب بچوں کی زندگی……. ان کو جب چاہتے ہیں نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔میں لبنان کا بانشندہ ہونے کی وجہ سے کوئی کم تر اور غیر اہم بچہ ہوں۔اگر میں امریکی ہوتا تو دنیا والوں کی نظر میں میری زیادہ اہمیت ہوتی۔کیا دونوں جگہوں کے بچوں میں کوئی خاص فرق ہے۔کیا خداوند تعالی نے سارے بچے برابر نہیں پیدا کیے؟
میرے پیروں میں سخت تکلیف ہے مگر میری امی بتاتی ہیں کہ میرے پیر ہی نہیں وہ دونوں بم سے اڑ گئے تھے۔میرے پیٹ میں بھی سخت تکلیف ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ لوگ میرے جسم سے کیا نکال کر لے گئے ہیں۔مگر میرا سارا جسم درد اور جلن کا ایک لوتھڑا محسوس ہوتا ہے۔ بستر پہ میں نے کوئی خاص جگہ نہیں گھیری ہے۔ میری قبر بنانا آسان ہوگا ایک چھوٹی سی لحد کھودنے میں کتنی دیر لگے گی۔
میں ایک ایسی دنیا میں ایک ایسی دنیا چھوڑ کر جا رہا ہوں جو بچوں کے لیے بہت شقی القلب ہے اور نا انصاف بھی۔میری بقیہ زندگی اس سے کہیں بہتر جگہ بسر ہوگی۔جہاں “نسل” اور “قومیت” کے لایعنی تصور سے دور ہر شخص کی عزت نفس اور اس کے وقار کا خیال کیا جائے۔
خاتون اول! مجھ سے ناراض نہ ہو کہ میں بہشت کی طرف سفر کر رہا ہوں۔وہاں میں اپنے ابو اور امی کا انتظار کروں گا۔پھر ان کے ہاتھ پکڑ کر ان کو بھی جنت لے جاؤں گا۔آپ سے ایک درخواست ہے کہ اپنے شوہر صدر بل سے کہیں کہ میرے جیسے دوسرے بچوں کو پر فضا بہاروں میں ہنسنے کھیلنے کا موقع فراہم کریں کہ وہ ساری دنیا میں عام بچوں کی طرح پلے بڑھیں۔ ان بموں کو صرف چھوٹے عرب بچوں پر نہ گرایا جائے۔عرب بچوں کو بھی اسرائیلی بچوں کی طرح ہنسی خوشی زندہ رہنے دیں۔ اس صورت میں شاید ہو سکتا ہے جس امن کی آپ بات کرتے ہیں جس نے مجھے موت سے چار کر دیا ہے اور میرے جیسے سینکڑوں بچے اور بھی موت کے منہ میں جا چکے ہیں اس امن میں حقیقی معنوعیت ہوگی۔
میری محبت اور احترام کے ساتھ؛
محمد ابراہیم’
نوٹ:”دو دن بعد 20 اپریل چار سالہ محمد ابراہیم سدون کے ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کر گیا جو اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اس نے سہے تھے۔اور جو اقوام متحدہ کے قناعت کے احاطے میں جنوبی لبنان پر کی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے احاطے میں پناہ گزینوں کے اس قتل عام کے نتیجے میں محمد ابراہیم کے انتقال سے مرنے والوں کی تعداد 102 ہو گئی تھی”۔
بحوالہ:نوائے وقت لاہور 4-اکتوبر-92ء