تحریر:رائحہ محمد
کبھی کبھی انسان بالکل خاموش ہو جاتا ہے اور اس کا بولنے کو دل نہیں کرتا، لیکن سکوت کے گہرے سمندر میں تلاطم خیز لہریں اٹھتی ہیں۔ یہ لہریں جب ساحلِ سکوت سے ٹکراتی ہیں، تو دل کے جزیرے میں طوفان بپا کر دیتی ہیں۔ آنسو کتنی عظیم نعمت ہیں! اگر یہ آنکھوں کی جھیل سے اپنا راستہ نہ بنا سکیں، تو روح چھلنی چھلنی ہو جاتی ہے۔ غم کے امڈتے طوفان روح کے اندر ہی اندر بھٹکتے رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر آنکھوں سے چند قطرے اشک ٹپک پڑیں، تو روح کی بستی ملیامیٹ ہونے سے بچ جاتی ہے۔
غم کے آنسو دراصل خون کے آنسو ہوتے ہیں جو دیکھنے میں اگرچہ موتی کی طرح سفید ہوتے ہیں، مگر ان میں چھپے زخموں کا درد صرف وہی محسوس کرتا ہے جو انہیں بہاتا ہے۔ یہ آنسو دل کے گھاؤ سے گزر کر آتے ہیں اور اس راستے میں دل کی ہر دھڑکن جیسے چیخ اٹھتی ہے۔
اور اگر یہی آنسو خوشی کے ہوں،تو روح بہار کی ہوا کے ساتھ جھومتے درخت کی مانند جھوم اٹھتی ہے۔ یہ آنسو جذبات کی شدت میں بہہ کر انسان کو بے اختیار سجدے میں گرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
یہی آنسو اگر اللہ کے خوف سے نکل پڑیں، تو وہ رحمت کے دریا بن کر جہنم کی آگ کو بجھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔
گناہوں کو بخش دے اے رب
میرے اشکوں میں اتنی تاثیر دے
یہ آنسو اپنے اندر وہ درد اور لذت رکھتے ہیں، جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتے ہیں اور بندے کو اللہ کے قریب کر دیتے ہیں۔