ازقلم:مریم عبداللّٰہ
دین میں ہر وہ عمل جس کی شرعی دلیل نہ ہو یا جو نبی کریمﷺ کے دور میں ممکن تھا لیکن نہ آپﷺ نے کیا نہ کرنے کی ترغیب یا حکم دیا اور نہ ہی آپﷺ کے سامنے ہوا ہو تو وہ نیا عمل بدعت اور عمل کرنے والا بدعتی ہے۔
امام شاطبی رحمہ الله کے مطابق دین میں شریعت سے مشابہ ایسا ایجاد کردہ طریقہ جس کا مقصد اللّٰہ کی عبادت میں مبالغہ آرائی ہو بدعت کہلاتا ہے۔ بدعت کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
“دین میں نئے کاموں سے بچو اس لیے کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی دوزخ میں لے جانے والی ہے۔” (ابو داؤد:4607)
اور اسی طرح رسول اللّٰهﷺ نے یہ بھی فرمایا:
“جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی حکم نہیں وہ مردود ہے۔”(مسلم:4493)
بدعت ایسا برا عمل ہے جس کے بارے میں رسول اللّٰہﷺ نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ آپ کی زندگی ہمارے لیے بہترین اور کامل نمونہ ہے کیونکہ جب اللّٰہ تعالی کا حکم آتا تھا تبھی رسول ہر بات کہتے تھے۔
“اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے اور وہ تو نہیں مگر وہی جو انہیں کی جاتی ہے انہیں سکھایا سخت قولوں والے طاقتور نے۔”
جب نبی کریم ﷺ دین کے معاملے میں کوئی بات عجیب مرضی سے نہیں کر سکتے تو کون سا ایسا ولی امام یا بزرگ ہے جس کو دین میں اپنی طرف سے کوئی بات کہنے یا کوئی عمل کرنے کا حق حاصل ہے؟
جو آدمی بدعت جاری کرتا ہے وہ اپنے آپ ﷺ کو رب کا شریک ٹھہراتا ہے جو آدمی کسی کے کہنے پر بدعت شروع کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس آدمی نے جس کے کہنے سے بدعت شروع کی اسے اپنا نبی بھی مانا اور اپنا رب بھی مانا۔ بے شک بدعت جاری کرنے والا اپنے منہ سے ایسی بات نہیں کہتا لیکن اپنے عمل سے وہ چیز ثابت کر دیتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ کام بھی اچھا ہے، نیت بھی اچھی ہے نبی کریم ﷺ نے یہ کام کرنے سے منع بھی نہیں کیا تو کر لینے میں کیا حرج ہے؟
منع تو آپ تب کرتے اگر کوئی ناپسندیدہ عمل آپ کے علم میں آ جاتا، “مثلاً ایک صحابی نے نمازِ عید سے پہلے ہی جانور کی قربانی کر لی تو آپ نے منع فرما دیا اور دوبارہ نمازِ عید کے بعد قربانی کرنے کا حکم دریا اور حرج یہ ہوا کہ سنت تبدیل ہو گئی اتباع نہ رہی۔”
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“تو کیا وہ جس کی نگاہوں نے اس کا برا کام آراستہ کیا گیا کہ اس نے اسے بھلا سمجھا ہدایت والے کی طرح ہو جائے گا۔”
“اسی لیے اللہ گمراہ کرتا ہے اسے چاہے اور ہدایت دیتا ہے جسے چاہے۔”
اس لیے بدعتی کو توبہ کا احساس تک نہیں رہتا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ایک جماعت کے پاس سے گزرے آپ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص کہتا ہے کہ سو مرتبہ اللّٰہ اکبر پڑھو، پھر وہ کہتا کہ سو بار لا الہ الا اللّٰہ پڑھو تو وہ پھر کنکریوں پر کہتے اور پھر سو مرتبہ سبحان اللّٰہ کہتا اور لوگ پڑھتے، آپ ؓ نے پوچھا کہ تم ان کنکریوں پر کیا پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم تکبیر و تسبیح پڑھتے ہیں، آپ ؓ نے فرمایا کہ تم ان کنکریوں پر اپنے گناہوں کو شمار کرو میں اس کا ضامن ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوگا۔ “تعجب ہے تم پر اے امتِ محمد ﷺ کتنی جلدی تم ہلاکت میں پڑ گئے۔ ابھی تو اصحاب کرام بکثرت موجود ہیں اور ابھی تک تو نبی کریم ﷺ کے برتن نہیں ٹوٹے اور تم بدعت و گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔” (سنن الدرامی: 49,48)
جو کوئی آدمی بدعت اختیار کرتا ہے وہ اللّٰہ تعالی کے دین کے نامکمل اور ناقص ہونے کا اور نبی کریم پر نامکمل اور ناقص دین پہنچانے کا الزام لگاتا ہے اور اس کا انکاری کہلاتا ہے۔
جو اللّٰہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ آیت ارشاد فرمائی وہ اس آیت کا انکاری ہے۔
ترجمہ: “آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا۔”
اللّٰہ تعالی نے جو دین نبی کریم ﷺ پر نازل کیا اسے مکمل بھی کیا اور محفوظ بھی۔ کوئی آدمی جب دین کو مکمل اور محفوظ سمجھے گا تو اسے دائیں بائیں جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
وہ دیکھے گا کہ ہمارے لیے قرآن و حدیث جیسی روشن کتابیں اور ان میں زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی فرمائی گئی ہے۔ رسول اللّٰہ ﷺ نے مناسب مقامات پر رہنمائی فرمائی جن سے ہم صراطِ مستقیم کو اپنا سکیں۔ دعا ہے کہ اللّٰہ تعالی ہم سب کو بدعت جیسی لعنت سے محفوظ فرمائے۔(آمین)