سمیہ بنت عبد الرحمان کے قلم سے
بینکنگ نظام
انیسویں صدی تک دنیا میں موجودہ طرز کا کوئی بھی بینک موجود نہ تھا، آغاز میں تو کرنسی سسٹم ہی نہیں تھا تجارت اشیاء کے بدل یا تبادلے کے اصول پر تھی۔ اس کو بارٹر ٹریڈ سسٹم کہتے ہیں۔ مگر اس کے متبادل کے طور پر کرنسی منظر عام پر اتی تو کرنسی کے تبادلے جمع حساب اندراج اور اجزاء کے لیے ایسے سسٹم کی ضرورت تھی جو کرنسی نوٹوں کو جاری کر سکے اس کا ریکارڈ رکھے اور اس کو باقاعدہ ریگولیٹ کر سکے۔کرنسی کا آنا ہی سود کی دیوار کو کھڑا کرنا تھا۔ دراصل یہودی اور عیسائی ایسا سودی نظام چاہتے تھے کہ ساری دنیا کو اس میں جکڑ لیں اور سود کے ذریعے اپنی معیشت کو بہتر بنانے کے پروگرام اور منصوبے بناتے رہیں۔ کرنسی کے نظام کے آنے سے یہود و نصارٰی کے کاروبار سود کو بڑا سہارا ملا تھا۔انیسویں صدی سے قبل دنیا بھر کے تجارتی نظام بالکل آزاد تھے مگر اس کرنسی کے نظام کے آنے سے اور بینکنگ سسٹم بن جانے سے دنیا کا سارا انتظام سود کے سہارے رہ گیا کیونکہ بینکنگ سسٹم چل ہی ایسے سکتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی بلڈنگیں شروع میں بینکوں کی ہی بنی ہوئی تھی کیونکہ بینکنگ نظام کو چلانے والے عملے اور ان کی تنخواہیں عمارتیں اور اتنی سہولتیں صرف سود کی رقوم سے ہی فراہم ہو سکتی تھیں۔سود کا فائدہ کبھی مسلم ممالک کو نہ ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ بینکنگ نظام اسی طرح سے مربوط ہے کہ دنیا کا سارا سود یہودیوں کے قبضے میں جاتا ہے پھر اسی سودی نظام کے تحت سٹاک ایکسچینج کا نظام بنایا گیا۔اس میں بھی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سود ہی ہوتا ہے نہ کہ اصل ذریعہ مال کی قیمت تیل کی پیداواری ممالک اپنے تیل کا صحیح فائدہ صرف اسی منحوس بینکنگ سسٹم اور سود کی وجہ سے نہیں اٹھا سکتے۔ امریکہ کا آج اتنا گھمنڈ اور غرور صرف اس بینکنگ نظام کی وجہ سے ہے۔
پاکستان میں مصائب کی وجہ کون…؟
پاکستان میں سارے مسائل کی وجہ بھی سود ہی ہے کہ آج بیرونی قرضے اتنے نہیں جتنا سود ہے بالکل یہی حال پاکستان کے اندرونی قرضوں کا ہے پاکستانی بینکوں سے قرضے لینے والے تین چیزوں کو ذہن میں رکھ کر قرضہ لیتے ہیں اول تو واپس کرنے کی نیت ہی نہیں ہوتی دوئم اس کو صحیح جگہ استعمال ہی نہیں کرنا۔ سوئم صرف ذاتی عیاشی اور استعمال کے لیے ہوتے ہیں۔قرضے جاری کرتے وقت بینک اور حکومتی ادارے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے زراعت کے لیے ان پٹ یعنی کھادیں بیج ادویات خریدی جائیں گی اور تجارتی کمپنیاں اس سے سرمایہ کاری کریں گی اس سے کارخانے چلیں گے جب کارخانے چلیں گے تو لوگوں کو روزگار ملے گا،برامدات بڑھیں گی،جب برامداد بڑھے گی تو ملک خوشحال ہوگا،عوام خوشحال ہوگی۔عوام کی خوشحالی کے لیے یہ بینک قرضے دیتے ہیں یہ بینک امدادیں ضرور دیتے ہیں اگر بینکوں کے پاس روپیہ ہوتا ہے مگر ان کو مجبوراً سود دینا پڑتا ہے اور اس طرح سودی نظام تو ہے ہی فائدے کی چیز بھلا اب فائدے کی چیز سے نقصان کیسے ہو سکتا ہے۔۔؟ امریکہ بھی تو اسی طرح سود کے سہارے عظیم بنا ہے پاکستان کیوں نہیں بن سکتا۔
عالمی ماہرین کے نزدیک انشورنس کمپنیاں پوری دنیا میں فساد کی جڑ ہیں یہی لوگ دنیا میں ڈرگ مافیا اسمگلنگ اور چور بازاری کے راستے کھولتے ہیں۔کچھ “دانشور” یہ بات کہتے ہیں کہ سودی نظام اگر فائدے کی چیز نہیں تو بھی اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہم مجبور ہیں اپنی معیشت ان بینکوں کے بغیر کیسے چلائیں کیونکہ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ پاکستانی بیچارے بیج کہاں سے لیں؟کھادیں بہت مہنگی ہیں اور ادویات کے بغیر لاکھوں کی فصلیں تباہ ہوتی جائیں گی اس لیے سودی بینک تو ناگزیر ہیں۔جو لوگ اس سودی نظام کے خلاف ہیں وہ بالکل غلط ہیں ان کو اس جدید دنیا کے تقاضے معلوم نہیں ہیں ترقی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے یہ سب ضروری ہے اس طرح تو ہم سودی بینکوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے یہ بھلا کون سی عقل مندی ہے کہ ہم اپنی معیشت کو سہارا دینے والے بینکوں کو ختم کرائیں۔ سودی نظام کے بغیر بھلا کس طرح لوگوں کو ہاؤس ،بلڈنگ فنانس والے قرضے دیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ہماری فلاح و بہبود اس سود کے بغیر تو ممکن ہی نہیں یہ سود ہی ہماری بقا کا ضامن ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے یہی سود ہی ہماری معیشت کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے۔
سود کی تباہ کاریاں
جو لوگ سودی قرض حاصل کرتے ہیں اول تو وہ اس کو کبھی بھی متذکرہ جگہ پر استعمال نہیں کرتے دوسرا وہ واپس کرنے کے متحمل نہیں ہوتے کیونکہ سود کی شرح اکثر اوقات کاروبار کے منافع کی شرح سے زیادہ ہوتی ہے مثلا رقم پر سود کی شرح 10 سے 15 فیصد ہوتی ہے مگر زراعت صنعت اور حرفت اور تجارت میں منافع سے 10 فیصد تک ہوتا ہے۔تو کیا یہ سود پر حاصل کردہ قرضےے جن کو لازم و ملزوم ثابت کیا جاتا ہے اصل میں مصیبت نہیں ہیں؟؟؟
اس صورتحال میں لیزنگ کمپنیاں اور بینک نہ تو اپنی رقم حاصل کر سکتے ہیں نہ مزید دے سکتے ہیں اب پاکستان کا حکومتی اندرونی قرضہ تقریباً دو ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے اور سودی قرضوں پر ترقیاتی کام ہو یا تجارت اور حرفت پر نفع 10 فیصد سے کم رہا ہے۔اس لیے اندرونی قرضے آج بینکوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں اور Liquidity Crunch کا مسلئہ پیدا ہو گیا ہے۔
اللہ تعالی کا قران کہتا ہے:
یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات( البقرۃ )
ترجمہ: اللہ تعالیٰ سود کو گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
اور یہ سود اور بینکنگ سسٹم آج ہمارے لیے ہر طرح سے وبال و جان ہیں ایک تو بیرونی قرضے اور اندرونی بیکار بینکنگ سیکٹر اگر یہ بیرونی سودی قرضے نہ ہوتے اور ورلڈ بینک جیسی بلائیں ہمارے گلے نہ پڑتی تو ہم ضرور ترقی کر سکتے تھے۔
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
الا تفعلوا بحرب من اللہ ورسولہ
ترجمہ: (سود سے) اگر تم باز نہ آئے تو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم سے جنگ کے لیے آجاؤ.
بھلا کوئی اللہ سے جنگ کر کے بچ سکتا ہے جس چیز کو اللہ تباہ کرے وہ کبھی نفع بخش نہیں ہو سکتی دنیا کا کون سا ملک ہے جو آج اس بینکنگ سسٹم اور انشورنس کمپنیوں کا ستایا ہوا نہیں ہے۔
ہمارے حکمران اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے موجودہ بینکنگ سسٹم کو باطل قرار دینے کے باوجود ہماری قوم کی یہ مصیبت ٹال نہیں سکے ہیں۔ دراصل مسئلہ ان کی سمجھ کا ہے وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بینکوں کے بغیر ہماری معیشت کو سہارا نہیں مل سکتا اور پھر اتنے سارے ملازمین کہاں جائیں گے؟؟ حالانکہ پچھلے چند برسوں میں نادھندگاں کی وجہ سے بینکوں کو ڈاؤن سائزنگ کرنا پڑی ہے اور ہزاروں ملازمین بے روزگار کر دیے گئے ہیں یہ صرف اللہ کی پکڑ تھی ان لوگوں کے لیے جو سود کا حساب کتاب رکھتے اور لکھتے تھے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے سود لکھنے لکھانے کے بارے میں بھی برابر سخت تنبیہ کی ہے۔سود کے بارے میں بننے والی کمیٹیاں اب ان لوگوں کو جبراً نکالنے کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔انسانیت کے تحفظ کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنا سیاہ چہرہ دکھایا تھا کہ یہی لوگ ظالم ہیں جو غریبوں کا خون پسینہ چوستے رہتے ہیں۔
بینکوں کے اس سودی نظام کے بن جانے کے 100 سال بعد اس طریقے اور نظام کے خالق معیشت دان آج پریشان ہیں کہ کیا کریں اس نظام میں بڑی دراڑیں آج سے کئی برس قبل 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں پڑی تھی تو اس کا حل کرنے کے لیے انہوں نے انشورنس کمپنیاں بنائیں مگر آج یہی انشورنس کمپنیاں زیادہ تباہی کے دہانے پر ہیں۔
فیصل وی اے ڈیمنٹ
اپنی کتاب Religious And The Decline of Capitalism میں لکھتے ہیں:
“صنعتی ترقی اس معاشرے کی خوشحالی کا باعث بن سکتی ہے جس کی زرعی بنیادیں مستحکم ہوں بنیادی اور گھریلو صنعت و حرفت مضبوط اور جس کے لوگوں میں مذہبی قوت (مذہبی کردار ) پایا جاتا ہو”
سود کے نقصانات پر روشنی ڈالی ہے کہ موجودہ انشورنس کمپنیاں دنیا میں برائیوں کی جڑ ہیں۔ یہی لوگ دنیا میں ڈرگ مافیا اسمگلنگ اور چور بازاری کا راستہ کھولتی ہیں اگر معیشت دان یہ بات کہیں کہ سود برائیوں کی جڑ ہے تو مذاق اڑاتے ہیں اگر قران کی آیتیں سنائیں تو کہتے ہیں ہم ملائیت نہیں چاہتے۔کیا اللہ کے عذاب سے بچانا Theocracy ہے؟کیا قران غلط کہتا ہے؟ کیا قرآن کی باتیں آج صحیح ثابت نہیں ہو رہیں؟
اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرنے والوں کو دنیا اور آخرت دونوں میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اللہ تعالی نے قران مجید میں سب سے بڑی آیت تجارت کے موضوع پر نازل فرمائی ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں۔سود نقصان ہے جو مال کو گھٹاتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے تجارت کرنے کا حکم دیا ہے کہ سود کی بجائے تجارت کی جائے۔
ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنی کتاب
“Political Economy Of Pakistan”
میں کرپشن کی پاکستان میں پیدائش کے متعلق یہ بات لکھی ہے کہ سیاسی قرضے ہی ہمارے نخرے اور رویوں میں تبدیلی کی وجہ ہیں۔راتوں رات امیر بننے کے چکر ہی دراصل ان سودی قرضوں کی وجہ ہیں۔کسی منصوبے اور فیکٹری کے لیے ایک بینک سے 50 کروڑ قرضہ لیا ادھر پروجیکٹ پر کام شروع ہوا اور اس بڑے بڑے بنگلے کی تعمیر شروع، بیرونی ملکوں میں Resorts ہوٹل خریدے جانے لگے۔1988 سے 1996 تک اربوں روپیہ قرض لیا گیا کیا یہ معیشت کی فلاح کا ضامن بنا یا تباہی کا ….؟؟؟؟
انشورنس کمپنیاں فائدہ مند یا نقصان دہ ؟
انشورنس کرنے والے اور کروانے والے جو بھی نیت رکھتے ہیں لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ بڑے بڑے فراڈ کرتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ بات بہانہ بنا کر کہی جاتی ہے کہ غیر ملکی سودی بینکوں سے معاملات کرنے ہوتے ہیں۔ تو سود کا لین دین ضروری ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ کیا دنیا میں اج غیر سودی بینک نہیں چل رہے کیا وہ گھاٹے میں ہیں؟ بالکل نہیں وہ کروڑوں روپے کا بزنس کرتے اور کرواتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بینکوں کو خطرہ یہ ہے کہ اگر سود ختم کر دیں گے تو ان کی ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تنخواہیں مرعات اور سہولتیں کون دے گا اور سود خور لوگ اپنی رقم نہیں رکھوائیں گے نہ لاٹری سسٹم چلے گا سود کے خلاف لوگوں کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا جاتا ہے کہ تم لوگ اپنی رقوم کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھوا لو۔حالانکہ Profit اور loss سسٹم بھی سودی ہے. کیونکہ کوئی بھی کاروبار نہیں کیا جاتا اور لوگوں کو منافع دیا جاتا ہے۔اگر گہری نظر سے دیکھا جائے کہ آج پاکستانی بینک تباہی کا شکار کیوں ہیں تو سمجھ آتا ہے کہ بینکوں میں رقوم رکھنے والے رقم تھوڑی رکھواتے ہیں جبکہ نکلوانے والے زیادہ نکلواتے ہیں ہوتا صرف یہ ہے کہ بینک رقم بینکوں کی دسترس سے نکل کر عوام کے پاس چلی جاتی ہے اس لیے اج بینک کرنسی نوٹوں کی کمی کا رونا روتے ہیں۔ہماری کرنسی کی قیمت گرنے کی وجہ صرف اور صرف سودی معیشت ہے کیونکہ کرنسی کی قیمت کو کم کرنے والے Money Speculators صرف سود کا سہارا لے کر کسی بھی ملک کی کرنسی کو جمع کرتے ہیں اور اس طرح سود کو برقرار رکھنے کے لیے کرنسی کی قیمت کو کم یا زیادہ کرتے ہیں۔پاکستان اور ان کے بینک اس سود سے نہ تو خود بچتے ہیں نہ اپنی کرنسی کو بچاتے ہیں۔ کیونکہ یہی بینک ان سودی کاروبار کرنے والے کو آنے کی دعوت دیتے ہیں۔اس سود کی وجہ سے ہمیں اپنی مصنوعات کی قیمتیں بھی کم ہی ملتی ہیں کیونکہ کرنسی پر سود کی وجہ سے قیمت صحیح نہیں ملتی۔
بحثیت مسلمان ہمارا کیا کردار ہونا چاہیے..؟
ہمیں سب سے پہلے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ کی طرح سود کا لین دین بند کرنا پڑے گا ۔اسی سے معاشرے میں محرومی ختم ہوگی۔غربت و افلاس کی جڑیں کٹیں گی۔ لوگ محنت کرنا شروع کریں گے خود کا کاروبار کرنے لگیں گے۔ آج سوچ یہ ہے کہ رقوم کو بچت کو فریب زدہ سکیموں میں رکھو، لاٹریاں کھیلو، خصوصا پینشن لینے والے بزرگ حضرات تواسی کو زندگی کا سہارا سمجھتے ہیں۔مگر یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو یہ نام نہاد بچتیں پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی کسی کا خون چوسنا پسند نہیں فرماتا کہ چند لوگ تو بینکوں سے رقوم نکلوا کر عیاشیاں کریں اور کسان مزدور اور تاجر چکی میں پستے رہیں۔اللہ کی نظر میں سب لوگ برابر ہیں اللہ تعالی انصاف چاہتا ہے یہ نہیں کہ چند لوگ خود کو پڑھے لکھے ثابت کر کے غریبوں کی کمائی پر زندہ رہیں۔ سود اور ان بینکوں نے ہمیں خود اس حال تک پہنچایا ہے ۔سود کے حق میں دلیلیں دینے والے نام نہاد دانشوروں سے ایک سوال ہے کہ غریبوں کی کمان اور ان کی فکٹریوں والوں کو دلوا کر ان کو کیوں باہر بھجوا دیا اور ان کی فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔یہ غریبوں کو کیوں بے روزگار کیا گیا ہے؟مگر ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ان دانشوروں کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ اس ظلم میں جو ان صنعت کاروں نے ڈھایا سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے دانشوروں کو کیا ہوا ہے کہ باہر کے ملکوں کی ترقی دیکھ کر وہی قانون یہاں چلواتے ہیں یہ تو تب ممکن ہے جب ہم بھی ان کی طرح کمزور ملکوں کے ساتھ سازشیں کریں. تو تبھی ہم بھی ان کی طرح امیر ہو سکتے ہیں. ہمارے دانشور اگر ہماری قوم پر احسان کرنا چاہتے ہیں تو ان کو اسلام کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا اور ایسے کام کرنے ہوں گے کہ ہم اللہ کی پکڑ سے اس دنیا میں بھی بچ جائیں اور اخرت میں بھی سرخرو ہو جائیں. اگر ہم سود کا کاروبار جائزقرار دیتے رہے تو نہ دنیا میں کچھ کما سکیں گے نہ ہی آخرت میں ہمارا حصہ ہوگا. جو کسان یہ سمجھ کر سودی قرضہ لیتا ہے کہ اس سے کھاد خریدوں گا تو کیا سودی قرضے کی کھاد پیداوار بڑھاتی ہے یا دوسرے عناصر اس میں شامل ہوتے ہیں۔۔۔؟
زراعت میں کم پیداوار کی وجہ پاکستانی سستے بیج کھادوں کی کمی, یا ادویات کا نہ ہونا نہیں ہے۔بلکہ زیادہ وجوہات جاگیرداری نظام کسانوں کے جھگڑے وغیرہ ہیں اسی طرح کاروبار نہ ہونے کی وجوہات اور ہیں کہ لوگ پیسہ لے کر بینکوں اور بچت کی سکیموں میں رکھوانے لگتے ہیں اور خود کاروبار کرنے سے گریز کرتے ہیں اس طرح ایک ایسا کلچر پیدا ہوتا ہے کہ سب کے سب لوگ سستی، کاہلی اور ہڈ حرامی کا شکار ہو جاتے ہیں. مگر بینک منافع دے بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ منافع کہاں سے لائیں. اس لیے تو لاٹری انشورنس وغیرہ کے راستے نکالتے ہیں تاکہ کسی طرح بینکوں تک پیسہ آئے اس سے بینک بھی مجبور ہو جاتے ہیں اور پریشان کن صورت سے دو چار رہتے ہیں کہ قرضہ اور سود واپس کرنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں مگر لینے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس لیے بینکوں کے ذمہ واجب الادا رقم لوگوں کے ذمہ واجب الادارقم سے بھی زیادہ ہے جب ملکی صنعتی، زرعی، معدنیاتی اور دیگر شعبوں کی پیداوار میں نہایت کمی ہو جاتی ہے بینک نہ تو خود ملکی ترقی میں شریک ہوتے ہیں بلکہ لوگوں کو بھی روکتے ہیں کہ کاروبار کرنے کی بجائے پیسے رقوم بینکوں کی زینت بنیں بینکنگ کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے….
یہ ایک ایسی صنعت ہے جس میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔
اگر یہ سود، انشورنس، لاٹریوں اور بچت کی لالچ میں نہ ہوں تو لوگ محنت کرنے لگیں کیونکہ لوگوں کی محنت ہمیں ترقی کی طرف لے جا سکتی ہے نہ کہ بینکوں کی طرف سے آنے والی رقوم یہی اسلام کا منشاء اور آج کی ضرورت ہے، یہی وہ راستہ ہے جو ہماری ترقی کا ضامن ہے اور اسی راستے پر چلنے والے کی فضیلت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے امانت دار تاجروں کا حشر صدیقوں اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔۔ ترمذی
اسلامی بینک بنانے کے بارے میں ہمارے وزرا صاحبان بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ ہم بغیر سود کے نظام لا رہے ہیں اس سلسلے میں عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے اعلان کیا گیا تھا کہ ہم بینکوں میں پی ایل ایس پرافٹ لاس سسٹم یعنی نقصان نفع سسٹم کو متعارف کروا رہے ہیں مگر حقیقت یہ سود سے چھٹکارا نہ تھا بلکہ سود کو سہارا دینے کا راستہ تھا کہ سود تو جاری تھا اور اپنی مرضی کے علماء سے فتوے دلا کر اس کو منافع اور نقصان کا نام دیا گیا کہ جھوٹ ہے کیونکہ لوگوں کو کہا جاتا ہے ہم صرف منافع نہیں لیتے بلکہ نقصان بھی پورا کرتے ہیں جو کہ ایک بہت بڑا فراڈ ہے بلکہ اس طرح بینک زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں مزید یہ کہ ہمارے وزیر مملکت یہ بار بار کہتے پھرتے ہیں کہ ہم ایک اسلامی بینک کھول رہے ہیں بھلا سودی حیثیت کے متوازی ایک اسلامی بینک کیسے چل سکتا ہے؟ یا ایک طرف تو سودی معیشت چلے اور دوسری طرف غیر سودی معیشت؟ یہ ناممکن ہے کیونکہ تمام بینک آپس میں ملے ہوئے ہیں. اگر سود ختم کرنا ہے تو اس کے لیے بھرپور اقدامات کرنے ہوں گے. ورنہ لوگ تو غیر سودی کاروبار نہیں کریں گے اور رقوم کو بینکوں میں رکھوا کر سود کھاتے رہیں گے تو اس لیے ہمیں مکمل طور پر سود کو ختم کرنا ہوگا حتی کہ کفار سے لین دین میں بھی سود نہ ہو اس سے لوگ اپنی رقوم کو بینکوں میں رکھوا کر سود کھانے یا جوا کھیلنے اور لاٹری وغیرہ کرنے کی بجائے کاروبار کریں گے تو معیشت میں تیزی آئے گی. دکھ کی بات یہ ہے کہ بینک لوگوں کو سود کا لالچ دینے کے لیے لاٹریوں,اور انعامی سکیمیں کھولتے ہیں اور کروڑوں روپے سود کی ایڈورٹائزنگ پر خرچ کرتے ہیں. کیا یہ سب ہماری معیشت کی بہتری کے لیے ہے۔۔۔۔۔؟ہرگز نہیں……. یہ سب ہماری جڑیں کاٹ رہی ہیں اس لیے متوازی غیر سودی نظام بالکل صحیح نہیں ہے دوسرا قرضہ دینے کے لیے سود کی شرط اگر ضروری نہ ہو تو لوگ قرض واپس کر دیں گے اور اگر بھاگ جانے کا خدشہ ہو تو ان کو باہر بھاگنے سے روکا جا سکتا ہے. تیسرا بینکوں میں کرپشن کو ختم کیا جائے جوا اور انعامی سکیموں کی سرپرستی ختم کی جائے، بہترین سے بہترین معاشی پیکج اور منصوبہ بندی بھی سودی نظام کی خرافات اور مسائل سے نہیں بچا سکتی اس لیے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بجائے اج صحیح فیصلے کرنے چاہیں. اگر حکمران اپنے احساسات، جذبات اور مفادات کو تحفیظ دیتے رہیں تو ملک کی معیشت کبھی بہتر نہ ہوگی بلکہ اسی طرح قرضوں کے بوجھ میں جکڑے رہیں گے اورغلامی ہمارا مقدر بنی رہے گی ۔اپنے مفادات کو قربان کر کے ہی ہم اپنی قوم کی خدمت کر سکتے ہیں اور اس کا بہترین طریقہ دین اسلام پر مکمل طور پرعمل پیرا ہونا ہے۔
آج اگر ہم بینکوں سے ہٹ کر جہاں چلے جائیں اس کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے پاکستان میں ہر طرف عوام کو لوٹا جو رہا ہے۔ملک میں بھوک اور افلاس سے لوگ جانیں دے رہے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ ہر فرد اگر اللہ کے دیے ہوئے قرآن پر عمل کرے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرے نا صرف انسان خود ترقی کرے گا عزت پائے گا خوشحالی کی طرف جائے گا بلکہ ملک کا نظام بہتر سے بہتر ہو سکتاہے اور صرف اسی صورت میں جب ہر شخص یہ کوشش کرے کسی ایک کے کرنے سے ملک ترقی نہیں کرتے۔اگر آج ہم پر ظالم اور نام نہاد حکمران مسلط ہیں تو میں سمجھتی ہوں یہ ہمارے گناہوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔لہذا اصلاح ہر انسان کی زندگی میں ضروری ہے زندگی کے ایام ابھی باقی ہیں اپنی آخرت درست کیجئیے نا کہ ایسے کام کر کے اللہ کے ہاں مجرم بنیں۔۔۔۔۔