تحریر: یمنٰی شعیب
پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے باہر لاہور شہر کی مصروف ترین شاہراہ مال روڈ سے گزرتے ہوئے ایک حیرت انگیز منظر نظروں میں آتا ہے۔
ایک ہاتھ میں کتاب اور دوسرے ہاتھ میں ٹوپی اٹھائے ایک انگریز کا مجسمہ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سامنے کافر صلیبی کا مجسمہ دنیا کو کیا پیغام دے رہا ہے؟
کہیں ہماری برائے نام آزادی کا تمسخر تو نہیں اڑایا جا رہا؟ الفا ڈالر کا مجسمہ لاہور شہر میں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ قربانیاں بے کار چلی گئیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنا گھر بار،جائیدادیں، مال،مویشی، اپنی عزتیں اور جانیں قربان کر کے پاکستان ہجرت کی۔ یہ سب محض اس ڈر سے کیا کہ اگر ہمارے بچے ہندوؤں کے ساتھ رہے تو ان کے تعلیمی اداروں میں انہی کی پیش کردہ ثقافت کا حصہ بن جائیں گے اسلام کو بھول جائیں گے۔
لیکن جن سے آزادی حاصل کی آج اس کے علمبرداروں ہی کہ مجسموں کی تم پذیرائی کرنے میں مصروف ہو۔ تم نے کیا آزادی حاصل کرنی تھی بلکہ تم تو آج بھی ہمارے ہی غلام ہو۔اپنے اسلاف کی پیروی کرنے کی بجائے ہمارے مجسموں کو اپنی تعلیمی اداروں میں سجائے بیٹھے ہو۔
ایلفرڈولر کون تھا؟ یہ بھی انگریزوں کے ساتھ برصغیر میں داخل ہوا۔ اور ادھر اس نے بھی دوسرے انگریزوں کی طرح سادہ لوح عوام کو اپنی رائج کردہ تعلیم کی طرف راغب کیا۔یہ سنسکرت اور فارسی زبان کا پروفیسر تھا۔ اس نے ان دونوں مضامین پر کتب بھی تحریر کیں۔
1902 میں اس کو عارضی طور پر یونیورسٹی کے لائبریرین کے طور پر رکھا گیا، جبکہ اگلے سال اس کو پرنسپل اور رجسٹرار کا درجہ دے دیا گیا۔
نجانے آخر کیا وجہ بنی کہ ایک عارضی لائبریرین کو ہی پرنسپل بنا دیا گیا جس کی عمر ابھی 24 سال تھی۔
ان کو اس عہدے کے لیے اس کے سوا کوئی اور شخص نہ ملا تھا۔
دراصل وہ اپنے ناپاک مقصد کے لیے اپنے ہی کسی ایجنٹ سے کام لینا چاہتے تھے۔
چاہے اس کے لیے انہیں اصول و ضوابط ہی کیوں نہ توڑنا پڑے۔ 1928 میں اس کو وائس چانسلر بنا دیا گیا۔ اور پھر 1936 میں اس کے مرنے کے بعد انگریزوں نے یونیورسٹی کے باہر ہی اس کا مجسمہ بنا ڈالا تاکہ آنے والی نسلیں چاہے وہ محمد عربی کے امتی ہی کیوں نہ ہوں اس بات پر رشک کرتی رہیں کہ ہمارا وائس ٹرانسلیٹ کبھی ایک انگریز ہوا کرتا تھا۔
اللّٰہ کے آخری نبی محترم جناب محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا اور جب مکہ کا شمار اسلامی ریاست میں ہو گیا تو بیت اللُّہ میں موجود تمام بت اپنے ہی دست مبارک سے توڑ ڈالے۔
نہ صرف مکہ میں بلکہ جہاں جہاں بھی مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا ہر قسم کے بت اور مجسمے توڑے جاتے رہے۔
اسلام کا مزاج ہرگز نہیں کہ یادگار کے طور پر مجسمے بنائے جائیں۔
بلکہ ہمارا دین تو وہ ہے کہ جو شخصیتوں کو اہمیت دینے کی بجائے ان کے اچھے اعمال اور تقویٰ کو اہمیت دیتا ہے۔
کوئی کافر چاہے کتنا ہی بہترین عمل کیوں نہ کرے اگر لا الہ الا اللہ کا اقرار نہیں تو اللّٰہ کے ہاں اس کی قبولیت کا درجہ بھی نہیں مل سکتا۔
اور پھر ایک صلیبی کا بت سجا کر اس کو آئیڈیل بنانا ایک ہزار مسلم ریاست کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔
پاکستان اسلام کی بنیاد پر بنا تھا۔تو یہاں بھی وہی قانون رائج ہونے چاہئیں جو اللّٰہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دور میں نافذ کر گئے تھے۔
پاکستان کے قیام کے بعد دنیا پر یہ ثابت کرنا بہت ضروری تھا کہ اب یہاں انگریز کی حکومت نہیں رہی۔اس کے عملی ثبوت کے طور پر ایسے تمام بت اور مجسمے گرا دینے چاہیے تھے جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ قوم انگریزوں کی غلام ہے۔
لیکن افسوس ہم نے ان مجسموں کو سجا کر یہ ثابت کر دیا کہ نہیں! ہم نے اسلام کے لیے تو الگ وطن حاصل نہیں کیا۔
ہم تو آج بھی اسی انگریز کو ہی اپنا آئیڈیل اور راہنما تسلیم کرتے ہیں۔علاقے کی مناسبت سے تو ہمیں آزادی مل گئی لیکن ذہن آج بھی اسی غلامی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
آج بھی تعلیم کا میدان ہو یا ہمارا میڈیا ہر طرف کفر کی غلامی کے سبق پڑھائے جاتے ہیں۔ ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ ہم تو جاہل تھے انگریزوں نے آ کر ہمیں جینے کا شعور دیا ان کی سکھائی گئی تعلیم ہی ہمیں معاشرے کا ایک باعزت شہری بناتی ہے۔ اگر ہم نے ان کی تقلید نہ کی تو ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے چلے جائیں گے۔اور اسی نظریہ کی ترویج میں آج پوری قوم مشغول ہے۔انگریز کی نقالی میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی جستجو نے ہمیں ہمارے حقیقی مقصد سے بے بہرہ کر رکھا ہے۔
لیکن اگر آج محض ہمارے نوجوان ہی اپنی منزل کا تعین کر لیں تو وہ دن دور نہیں کہ جب ہم ہی میں سے کوئی محمد بن قاسم آئے گا اور پاک وطن کو ان بتوں سے ہمیشہ کے لیے پاک کر دے گا اور دنیا پر یہ ثابت کر دے گا کہ آج اس قوم کے افکار و نظریات بھی غلامی کی جکڑ بندیوں سے نجات حاصل کر چکے ہیں۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ
کر خاص ہے عمل میں قوم رسول ہاشمی