تحریر:اسماء تاثیر
اگرچہ مشرقی پاکستان کے سکوت کا سانحہ 1971 میں ہوا مگر تقسیم ہند ہی سے کچھ ایسے8 عوامل اور اسباب حرکت پذیر رہے جو بالآخر اس سانحے کی وجہ بنے اگر ترتیب واران اسباب کا جائزہ لیا جائے تو وہ کچھ یوں بنتے ہیں: ہندوؤں کے اثرات
ہندو اگرچہ مشرقی پاکستان کی آبادی کا صرف 14 فیصد تھے تاہم بنگال کے اقتصادیات، معیشت ،ابلاغی ذرائع اور تعلیمی اداروں پر ان کے گہرے اثرات تھے۔ تقسیم ہند سے قبل جو ہندو آل انڈیا کانگرس کے ممبر تھے۔انہوں نے پاکستان نیشنل کانگرس کے نام سے اپنی تنظیم قائم کر لی جو کہ درحقیقت ہندوستان کی غیر سرکاری نمائندہ تنظیم تھی اور اس کے رہنما اور بنیادی ارکان ہندوستانیوں کی نمائندگی اور مخبری کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
لسانی تنازعات
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی ہی میں بنگالی زبان کی حمایت اور اس کے سرکاری زبان قرار دیے جانے کے بارے میں مظاہرے ہوتے رہے۔ بعد ازاں بنگالی کو بطور قومی زبان بھی اختیار کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود لسانی تعصبات میں کوئی کمی واقع نہ ہو سکی۔
ہندو مسلم اتحاد
بنگالی رہنما صرف اور صرف مقنہ میں برتری حاصل کرنے کے لیے ہندو مسلم اتحاد کے حامی بنتے چلے گئے یہاں تک کہ حسین شہید ساہروری جیسے راہنما بھی مخلوط انتخاب کے زبردست اور مسلسل حامی رہے حالانکہ پاکستان کی بنیاد جداگانہ انتخابات ہیں اور مخلوط انتخابات نظریہ پاکستان کی نفی کرتے ہیں۔
مسلم لیگ کی ناکامی
بنگال میں مسلم لیگ کو ایسے رہنما میسر آئے جو وڈیرا شاہی کی نمائندگی کرتے ہیں اور جن تک پہنچنا عام آدمی کے بس کی بات نہ تھی چنانچہ مسلم لیگ کے مقابلے میں تنگ نظر انتہا پسند اور قومیت پرست جماعتیں تیزی سے ابھرنا شروع ہو گئی یہاں تک کہ مملکت کا مشرقی حصہ مسلم لیگ کے وجود تک سے خالی ہو گیا۔
نمائندگی بلحاظ آبادی
پاکستان کی آبادی کا 56 فیصد بنگالیوں پر مشتمل تھا بنگالی اپنی آبادی کے تناسب کے حوالے سے قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کے خواہاں تھے۔
صدارتی طرز حکومت
صدارتی طرز حکومت بھی علیحدگی کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ پارلیمانی نظام حکومت میں اختیارات بذریعہ نمائندگان اوپر سے نیچے تک جاتے ہیں جبکہ صدارتی نظام میں شراکت اختیار کی بجائے ارتکاض اختیار کا فلسفہ کام کرتا ہے تقسیم کے بعد صدر کے مغربی حصے سے ہونے کی وجہ سے بنگالیوں میں احساس محرومی پیدا ہوا اور یہ احساس محرومی نفرت میں اور نفرت علیحدگی پر منتج ہوئی۔
شیخ مجیب کے چھ نکات
شیخ مجیب کے چھ نکات پر روشنی ڈالنے سے قبل اس بات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ شیخ مجیب کے چھ نکات کو بنگال کے75 فیصد عوام کی تائید حاصل تھی۔وہ نکات درج زیل ہیں۔
طرز حکومت پارلیمانی اور وفاقی ہوگا اور پارلیمنٹ میں نمائندگی بلحاظ آبادی ہوگی۔
وفاقی حکومت صرف دفاعی اور خارجی پالیسیاں وضع کرے گی۔
ملک کے دو حصوں کی دو علیحدہ کرنسیاں ہونی چاہیے جن کا آپس میں آزادانہ تبادلہ ہو سکے اور جن کے نرخ بین الاقوامی منڈیوں میں خود مختار حیثیت میں مقرر کیے جا سکیں۔
زر مبادلہ کو جمع کرنے کے لیے ملک کے دونوں حصے علیحدہ اکاؤنٹس بنانے کے سلسلے میں خود مختار ہوں گے۔
مالیات کے مسئلے میں دونوں حصے خود مختار ہوں گے۔
دونوں حصے نیم عسکری قوتیں بنانے کے ضمن میں خود مختار ہوں گے تاکہ ملک کی دفاع میں اپنی اپنی شراکت کا اظہار ہو سکے۔
حکمران طبقے کا رویہ
قیام پاکستان کے وقت سے ملک میں دو طبقات کرنے کے حوالے سے مکمل خود مختاری حاصل تھی۔ مشرقی پاکستان کے باشندوں کو شکایت تھی کہ مغربی پاکستان کے بعض بیوروکریٹس ریاست کے تمام اختیارات پر قابض ہیں وہ اپنی اس بات کے کہنے میں اس لیے حق بجانب تھے کہ 1969 تک بنگال کا کوئی افسر کسی کلیدی عہدے پر فائز نظر نہیں آتا۔ پاکستان فوج کا معاملہ اس سے کوئی زیادہ جدا نہ تھا۔
Recruirmentsکا مرکز پنجاب کے چار اور سرحد کے دو اضلاع تھے۔ راولپنڈی،کیمبل پور، جہلم ،گجرات پشاور اور کوہاٹ کے علاوہ ملک کے تمام اضلاع نظر انداز کیے جا رہے تھے 60 فیصد فوج پنجابی اور 35 فیصد پشتونوں پر مشتمل تھی بنگالیوں کو اس وقت غیر حکمران نسل کے طور پر لیا جاتا رہا پاکستان کے باقی خطوں میں رہنے والے لوگوں سے بنگال کٹا ہوا تھا۔
معاشی ترقی
مغربی پاکستان کے راہنما صنعتی پھیلاؤ کا مرکز مغربی پاکستان کو بنانا چاہتے تھے اور آزادی کے فوراً بعد اس بات کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی کہ نجی سیکٹر میں صنعتوں کو لگایا جائے اور درآمدہ لائسنس بھی زیادہ تر مغربی پاکستان کے لوگوں کو دیے جاتے تھے پہلے پنچ سالہ منصوبے میں مالیاتی معاملات میں مشرقی پاکستان کا حصہ تقریبا 26 فیصد تھا۔ مشرقی پاکستان کا کل ریونیو تقریباً اڑھائی بلین روپے تھا۔ جبکہ مغربی پاکستان کا ریونیو نو ملین روپے تھا۔ اس معاشی نا انصافی کے خلاف آواز 1954 کے الیکشن میں ہی اٹھنا شروع ہو گئی تھی لیکن ان بے اعتدادیوں کو دور کرنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت علمی وضع نہ کی گئی تھی۔
ان ساری باتوں کا نتیجہ وفاقی حکومت کے خلاف نفرت کی صورت میں نکلا۔
لیگل فریم ارڈر کی تنقید میں ناکامی
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انعقاد کو مضبوط اور مستحکم بنیادیں فراہم کرنے کے لیے لیگل فیم آرڈر کا قیام عمل میں آیا۔
لیگل فریم آرڈر کے مطابق قومی اور صوبائی نشستوں کی تقسیم مندرجہ ذیل تھی ۔
قومی نشستیں
مشرقی پاکستان میں خواتین کی 7 اور عمومی طور پر 162 نشستیں تھیں۔ پنجاب میں خواتین کی تین اور عمومی طور پر 82 نشستیں تھیں۔سندھ میں خواتین کی ایک اور عمومی طور پر 27 نشستیں تھیں۔بلوچستان میں خواتین کی ایک اور عمومی طور پر چار نشستیں تھیں۔ خواتین کی کل 13 اور عمومی طور پر 300 نشستیں تھیں۔
صوبائی نشستیں
مشرقی پاکستان میں خواتین کی 10 اور عمومی طور پر 300 تھیں اور پنجاب میں خواتین کی 6 اور عمومی طور پر 180 نشستیں تھیں۔ سندھ میں خواتین کی 2 اور عمومی طور پر 60 نشستیں تھیں۔ بلوچستان میں خواتین کی 1 اور عمومی طور پر 20 تھیں۔ سرحد میں خواتین کی 2 اورعمومی طور پر 40 تھیں۔ خواتین کی کل 21 اور عمومی طور پر 600 نشستیں تھیں۔ جنرل یحیٰی لیگل فریم ورک آرڈر کی تنقید میں ناکام ہو گیا اس وجہ سے دونوں حصوں میں سیاسی بے سکونی کی فضا قائم ہو گئی۔
حصول اختیار کی جنگ:
قومی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے جنرل مجیب اپنی تمام تر قباحتوں کے باوجود اقتدار کا حقدار تھا مگر ذوالفقار علی نے شخصی انا کی تسکین کے لیے قومی اسمبلی کے ڈھاکہ میں منعقد ہونے والے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور یحییٰ خان پر جانبداری کا الزام لگا کر لوگوں کو خانہ جنگی کے لیے بریف کیا۔
مشرقی پاکستان میں ملٹری ایکشن
مجیب الرحمٰن نے ذوالفقارعلی بھٹو کے بائیکاٹ کے بعد اسلام آباد جانے سے انکار کر دیا۔23 مارچ 1971 کو ایک بڑی تعداد میں مغربی پاکستانی باشندوں کو بنگال میں قتل کیا گیا اور یومِ پاکستان کو “یومِ مزاحمت” کے عنوان سے منایا گیا۔ جنرل ٹکا خان کو بطور گورنر مشرقی پاکستان بھیجا گیا۔ لیکن معاملات پر قابو نہ پا سکا اس کی بنیادی وجہ نوکر شاہ قدم تعاون تھا جو کہ خود بغاوت کی پشت پر تھی۔ معاملات کو و اعتدال میں لانے کی ناکام کوشش نے صرف بنگالیوں کی نفرت میں اضافہ کیا اور کچھ بھی فوائد حاصل نہ ہو سکے۔
بھارتی طیارے کی ہائی چیکنگ
30 جنوری 1971 کو بھارتی خفیہ ایجنسیوں نے ایک پلاننگ کے تحت اپنے طیارے کے اغوا کا ڈرامہ رچایا اور اس الزام کے بعد اپنے فضائی راستے پاکستان طیاروں کے لیے بند کر دیے۔ اس بات سے بھی علیحدگی پسند عناصر کو تقویت ملی۔
بین الاقوامی طاقتوں کی بے وفائیاں
چین ہمیشہ سے امریکہ کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ہے۔لیکن اس خطے میں عسکری اعتبار سے متحدہ پاکستان کا وجود امریکہ کے چین کے بارے میں ارادوں کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ تھا۔ اس کی بنیادی وجہ چین اور پاکستان کی انمٹ دوستی تھی امریکہ نے اسرائیل کی بے پناہ حوصلہ افزائی کی کہ وہ بھارت کو ہتھیار فراہم کریں اور سعودی عرب اور اردن پر سخت پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی کہ وہ اس جنگ میں پاکستان کا کوئی تعاون نہ کریں۔ اس جنگ میں امریکہ نے اس جنگی وعدے کا بھی پاس نہ کیا جو کہ 1959 میں sento کے نام سے کیا گیا تھا اور جس کے تحت امریکہ پاکستان کی مدد کرنے کا پابند تھا ۔
اندرا گاندھی کا کامیاب دورہ یورپ اور امریکہ
اندرا گاندھی نے فوج کشی سے قبل امریکہ اور یورپ کا ایک کامیاب دورہ کیا جس کا ایجنڈا مشرقی پاکستان کے مہاجروں کے لیے امداد کا حصول تھا اور جس کا مقصد سپر طاقتوں کو قائل کرنا تھا کہ وہ بھارتی فوج کشی کی نہ تو مزاحمت کریں اور نہ ہی مشرقی بنگال کے معاملات میں مداخلت کریں۔
بھارتی فوج کشی
سیاسی جنگ جیتنے کے بعد انڈیا نے مکتی باہنی کے نام سے پرتشدد رضا کاروں کو بنگال برآمد کرنا شروع کر دیا جس کے بعد اس قسم کی فضا بن گئی کہ سیاسی اعتبار سے ہندوستان کو فوج کشی کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔ پاکستانی فوج نے بڑی بےجگری سے ان کا مقابلہ کیا مگر سپلائی لائن نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
پاکستانی وفد کااقوام متحدہ میں رویہ
پولینڈ نے یو این او میں جنگ بندی کے لیے ایک قرارداد پیش کی جسے ذوالفقار علی بھٹو نے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ یوں پاکستانی وفد کا یہ اخلاق شکن رویہ اقوام عالم کی حمایت حاصل کرنے کی بجائے ان کے مخالفت کمانے میں کامیاب ہوا۔
نظریہ پاکستان سے انحراف اور بت پرستی
مذکورہ بالا اسباق کے مقابلے میں سب سے بڑا صدر جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنا وہ نظریہ پاکستان کا انحراف تھا۔ نظریہ پاکستان کا خلاصہ یہ تھا کہ قومیں رنگوں سے نہیں بنتی قوم زبان سے نہیں بنتی قومیں جغرافیائی حد بندیوں سے نہیں بنتی بلکہ اگر قومیں بنتی ہیں تو نظریے سے بنتی ہیں۔ مگر جب ہم نے عقیدے کو مرکز محبت ٹھہرانے کی بجائے رنگوں اور نسل اور قومیت کے بتوں کو پوجنا شروع کیا تو پاکستان دولخت ہو کر رہ گیا تھا۔
بنگال کا قیام اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم نے لسانیت و قومیت کے بتوں کو نہیں پوجنا بلکہ مذہب و عقیدے کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے ہیں۔