تحریر: بنت احسان
میرا اصل نام نہ لکھا جائے کوئی فرضی نام لکھ کر انٹرویو چھاپ دیں اس لیے کہ والدین اور خاندان کو اس کی سزا دی جائے گی وہ پہلے ہی میری ہجرت کے بعد ہندو فوج کے زیر عتاب ہیں اُس رنجیدہ خاتون نے رندھی ہوئی آواز میں اپنی بات شروع کی۔
س: آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں نیز یہ بتائیں کہ آپ کن مشکلات سے گزر کر پاکستان پہنچی؟
ج: ہم پانچ بہنیں اور چار بھائی ہیں میری شادی بھی بہت خاموشی اور رازداری سے ہوئی میرے شوہر بھی پاکستانی مجاہد ہیں، محبِ وطن اور ایماندار کشمیری اسلام اور جہاد کی خاطر ایسی قربانیاں بڑے شوق سے دیتے ہیں ،وہاں بھی اللّٰہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے جہاں کفر کی خدائی ہے۔ میرے میاں نکاح کے بعد پاکستان آگئے اور پھر میری رخصتی ہونا تھی میرے گھر والے بہت روتے تھے کہ خدا جانے اب دوبارہ زندگی میں ملاقات ہوگی بھی یا نہیں ادھر میرے میاں اور سسرال والے میرے انتظار میں تھے اور اصرار کر رہے تھے کہ مجھے جلد بھجوایا جائے لہذا میں اپنے بھائی کے ساتھ چھپتے چھپاتے وادی سے شہر تک روٹ بدل کر چھ دن میں پہنچی، اس لیے کہ اگر ہمارے خاندان یا محلے میں کسی کو شک بھی ہو جاتا کہ میں ویزہ لینے کے لیے دہلی جا رہی ہوں تو ہمارے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑتی۔ سری نگر جموں،جموں سے دہلی، اور دہلی سے امرتسر شہر۔ اسٹیشن پر پہنچا کر میرا بھائی واپس چلا گیا امرتسر شہر سے لاہور تک ٹرین میں 10سے 15 منٹ لگتے ہیں لیکن اتنے وقت میں بھی مجھے بہت مشکل پیش آئی مجھے اکیلا دیکھ کر ٹرین کا نگران آفیسر کہنے لگا اپنا پاسپورٹ مجھے دے دو لاہور پہنچ کر لے لینا میں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا میں اپنا پاسپورٹ تمہیں نہیں دے سکتی ۔اس کے بعد مجھے باتھ روم جانے کی ضرورت پیش آئی تو وہ میرا راستہ روک کر کہنے لگا تمہیں باتھ روم جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں بالکل تنہا اور اجنبی اللّٰہ سے دعا کرنے لگی، اتنے میں لاہور اسٹیشن آگیا، میں اسٹیشن پر اتری تو میرے میاں کا فون آگیا سب گھر والے مجھے لینے آئے ہوئے تھے لہذا میں مشکل سے بچ گئی میرا پاکستان میں بہت اچھا استقبال ہوا مجھے گمان سے زیادہ عزت دی گئی لیکن فاطمہ کی طرح میرا دل پاکستان کو دیکھ کر دکھتا ہے جس ملک کے مجاہد دوسروں کے لیے اتنی قربانیاں دے سکتے ہیں وہ اپنے گھر کو کیوں نہیں بچا سکتے؟
س: کشمیری لوگ مجاہدین کے بارے میں کس قسم کے جذبات و خیالات رکھتے ہیں؟
ج: کشمیری لوگ مجاہدین سے بہت محبت کرتے ہیں جب شہادتیں ہوتی ہیں تو فوجی شہدا کی لاشیں اٹھا کر اپنے کیمپوں میں لے جاتے ہیں اور پھر ان کی ویڈیو فلمیں تیار کرتے ہیں لیکن اکثر کشمیری لوگ مجاہدین کی میتوں کو فوراً اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں ۔کشمیری عورتیں لاشوں پر گر جاتی ہیں اور ہندو فوجی جھنجلاہٹ میں آ کر ٹھوکریں مارتے اور بندوقوں کے بٹ مارتے ہیں لیکن وہ لاشوں کو اٹھانے نہیں دیتیں ہمارے مرد میتوں کے غسل اور کفن دفن کا خود انتظام کرتے ہیں اور ہر شہید کی قبر پر اس کا نام ایک پتھر پر لکھ کر رکھ دیا جاتا ہے ۔شہداء کے قبرستان الگ بنائے جاتے ہیں۔ پوری وادی میں شہداء کے بڑے بڑے قبرستان ہیں۔ کشمیر آزاد ہوگا تو ہر کوئی اپنے شہداء کی قبروں کو بآسانی دیکھ سکے گا۔ انشاء اللّٰہ!
س: حالات و واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو فوج مجاہدین کے خلاف پروپگینڈا کر رہی ہے جس سے تحریک ازادی کشمیر کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گی؟
ج: جن لوگوں میں ایمانی قوت ہوتی ہے وہ خطرات مول لینے سے نہیں گھبراتے ۔اب ہندو فوج نے کشمیریوں کو مجاہدین سے متنفر کرنے کے لیے کئی چالیں چلنا شروع کر دی ہیں۔ انہوں نے پچھلے دنوں ایک نعت خواں پر دوبارہ قاتلانہ حملہ کر کے مجاہدین کا نام لگا دیا ،ایسے کئی واقعات جنم لیتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے کافر اور منافقین مجاہدین کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اصل دشمن کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور مسلمان آپس کی لڑائی جھگڑوں اور مخالفت کا شکار ہو کر دشمنوں کے مقاصد کو پورا کرنے لگ جاتے ہیں۔
س: جیسا کہ ہم جانتے ہیں کشمیری لوگ اور مجاہدین مل کر ہندو تسلط سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں تو اس سلسلے میں ہندو فوج کا رد عمل کیا ہے اور کشمیریوں کو کن مصائب و آلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے؟
ج: اس سوال کے جواب میں میں چند واقعات کا ذکر کروں گی ۔ہمارے گھر میں مجاہدین کا زیادہ آنا جانا تھا میرے والدین اور بھائی مجاہدین کی بہت عزت اور احترام کرتے تھے اور ان کی مہمان نوازی کو فخر اور سعادت سمجھتے تھے ایک مرتبہ ہندو فوجی ایک لڑکی کے پیچھے پڑ گیا چونکہ عورتیں اکثر کھیتوں کے کام کاج اور مزدوری کے لیے گھر سے باہر جاتی تھیں فوج بھی عوام کے سر پر مسلط ہے وہ لڑکی جب بھی گھر سے نکلتی تو یہ فوجی غنڈا اسے تنگ کرتا آخر تمام گاؤں والوں نے مل کر احتجاج کیا اور اس فوجی کو سزا دینے کی ٹھانی تو پھر اس کے آفیسر نے لوگوں کے جذبات ٹھنڈا کرنے کے لیے سزا سنا دی۔
ہماری ایک پڑوسن کا شوہر مجاہدین کے ساتھ رہنے لگا اور ان کی مدد کرنے لگا وہ خود بھی ان کی مدد کرتی تھی۔ ہندو فوج اس کے شوہر کو پکڑ کر لے گئی اور جیل میں بند کر دیا اس پر سخت تشدد ہوتا تھا۔ ہندو فوجی گھر آتے اس عورت پر بھی ظلم کرتے اور مجاہدین کے ٹھکانوں کا پتہ پوچھتے تھے کہتی تھی کہ ایک دن میں جیل میں اپنے شوہر سے ملنے گئی تو اس نے مجھے بتایا کہ میرے سامنے والے کمرے میں ایک چھوٹا سا نو عمر مجاہد بند ہے جب پولیس اس پر تشدد کرتی ہے اور مارتی پیٹتی ہے تو مجھے اس کی آوازیں آتی ہیں ۔وہ کہتا ہے “حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل” تو میرا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے ۔کبھی کبھی جب میں ہندوؤں کے ظلم و ستم سے گھبرا کر سوچنے لگتا ہوں کہ ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے میں ان کو مجاہدین کا پتہ بتا دوں تو پھر اس کی صدائیں میرے کانوں سے ٹکراتی ہیں تو میں یہ خیال جھٹک دیتا ہوں۔ اللّٰہ سے ثابت قدمی کی دعا کرنے لگتا ہوں ایک سال کے بعد انہوں نے اس کشمیری ہمسائے کو چھوڑا تو اس کی ٹانگیں تشدد سے بیکار ہو چکی تھیں ۔
میری ایک دوست کی پاکستانی مجاہد سے شادی ہو گئی تو اس نے اپنی زندگی کو مکمل اسلام کے رنگ میں ڈھال لیا اور مجاہد کی تربیت نے اسے صحیح مومنہ بنا دیا۔ ان دونوں نے پاکستان آنے کے لیے کوشش کی لیکن قانونی طور پر آنے کی صورت نہ بن سکی لہذا شادی کے دو ماہ بعد اپنی بیوی کو چھوڑ کر مجاہدین کے ساتھ پاکستان آگیا، اس کے آنے کے دو ماہ بعد فاطمہ (یہ نام بھی فرضی ہے) کہ ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی اور پورے علاقے کی نظریں ان کے گھر پر لگ گئیں کہ فاطمہ کی شادی کس سے ہوئی ہے یہ بچہ کس کا ہے؟
حتیٰ کہ آرمی تک یہ بات پہنچ گئی اور فاطمہ نے یہ بچہ اپنی بہن کو دے دیا۔ اس کے باوجود ہندو آرمی نے اس کا جینا عذاب بنا دیا کہ بتاؤ مجاہد کہاں ہیں جس کا یہ بچہ ہے یا بچہ ہمارے حوالے کرو یا اس کا باپ؟ آخر انہوں نے آرمی آفیسر کو ایک لاکھ روپے رشوت دے کر اپنی جان چھڑائی پھر بھی ان کو ستانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ہے۔ فاطمہ پر ہر وقت نگاہ رکھی جاتی ہے وہ کسی کالج میں ٹائپسٹ کی نوکری کرتی تھی۔
ایک دن (ہندو فوج نے) اسے راستے میں روک کر کہا کہ اپنی شناخت کرواؤ، اس نے اپنا نام اور گھر کا پتہ بتایا تو کہنے لگے کہ نقاب اٹھا کر چہرہ دکھاؤ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ نقاب تو میں نے کافروں سے چہرہ چھپانے کے لیے ڈالا ہوا ہے۔ ہندو غنڈوں کو بہت غصہ آیا کہنے لگے گاڑی تمہاری وجہ سے رکی ہوئی ہے تمام مسافر لیٹ ہو رہے ہیں نقاب ہٹا دو وہ بھی ڈٹ گئی۔
مسافروں نے بھی دباؤڈالنا شروع کیا کہ اگر تم عورت ہو تو تصدیق کروا دو کیا فرق پڑ جائے گا ہمارا وقت ضائع ہو رہا ہے، وہ نہ مانی پھر ایک فوج آفیسر آیا اس نے کہا کہ ہم کسی مجاہد کی تلاش میں ہیں تم تنہائی میں جا کر ایک جھلک دکھا دو ہمیں اطمینان ہو جائے گا، نہ اپنا وقت ضائع کرو اور نہ ہمارا۔ فاطمہ نے کہا تم یہ بھول جاؤ کہ میری زندگی میں تمہیں چہرے سے نقاب اٹھا لو گے۔ فاطمہ کہتی ہے اس جواب کے بعد گاڑی کے تمام مسافر میرا ساتھ دینے لگے ۔انہوں نے ہندو فوج سے کہا اس شریف لڑکی کا پردہ اتار کر آپ کو کیا ملے گا؟ آخر وہ زچ ہو کے چلے گئے۔
سارے مسافروں نے میری استقامت کی داد دی اور میرا حوصلہ بلند کیا۔ ان حالات سے مقابلہ کرتے کرتے وہ پاکستان آگئی کیونکہ ادھر اس کے شوہر کو قانونی طور پر جانے کی اجازت نہ ملی تھی جبکہ وہ چاہتا تھا اب وہ ویزہ لے کر جائے اور آزادانہ رہ کر اپنا گھر اور مشن دونوں کو چلائے جب یہ ناممکن ہو گیا تو فاطمہ نے قربانی دی اس کے بچے کا ویزہ بھی نہیں لگ رہا تھا۔ جب تک باپ کی شناخت نہ ہو لہذا وہ اپنا بچہ، والدین ،وطن، سب کو چھوڑ کر پاکستان آگئی۔
اب بھی فوج جب چاہے ان کے گھر پر بلوا کرتی ہے ،بزرگ والد کی داڑھی نوچ کر اسے پھینک جاتے ہیں، طرح طرح سے نذرانے اور رشوت وصول کرتے ہیں۔ فاطمہ کی گود میں اب تین ماہ کی بچی ہے اور وہ بیچاری بہت دکھی رہتی ہے میں اسے ملنے گئی کہ میں نے اتنا کچھ اس لیے چھوڑا تھا کہ پاکستان میں عربوں کا وہ اسلام ملے گا جو نبی ﷺ کے دور میں تھا، یہ ملک اپنے نام کی طرح پاک ہوگا، برائیوں اور گناہوں سے پاک لیکن یہاں آ کر دیکھا تو دل ٹوٹ گیا۔ وہاں تو کافر ظلم کرتے ہیں لیکن یہ اپنے ہی اپنوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں یہ تو ہماری غلام وادی سے بڑھ کر زندگی غلام ہے انسانیت غلام ہے میں اپنے شناختی کارڈ اور دوسرے کاغذات بنوانے کے لیے سرکاری دفاتر میں جاتی ہوں تو مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ تم پاکستان کیوں آئی تھی؟ اتنی ذلت اور خوار تقاضوں کا بھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ یہ ملک جہاں سے مجاہدین اتنی قربانیاں دے کر ہماری مدد کے لیے جاتے ہیں ان کو ان کی بھی عزت اور قدر کا خیال نہیں ہے یہاں تو ایمان کو مضبوط رکھنا وہاں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔
س: آپ پاکستانی خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
ج: میرا تو پاکستان کی ماؤں، بہنوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ مجاہدین کے ہاتھ مضبوط کریں جب تک مجاہدین کفر کے مقابلے پر کھڑے ہیں کوئی اسلام کو نیچا نہیں دکھا سکتا۔ آپ اس آزادی کی قدر و قیمت ہم سے پوچھیں یا ان قوموں سے جو غلام ہیں، اپنی آزادی کو بچانے کے لیے اپنی زندگیاں اولادیں اور مال ہر چیز قربان کر دیں اس لیے کہ جب اپنی دوسری چیزیں بچانے کے لیے آزادیاں بیچی جاتی ہیں تو پھر قوم عبرت کا نشان بن جاتی ہے، آزادی نہیں رہتی تو پھر کچھ بھی نہیں بچایا جا سکتا۔