تحریر:امتیاز احمد

جیمز ابیبا
1980 کی بات ہے.اس وقت میں واشنگٹن ڈی-سی کے قریب ایک ملٹری چھاونی فورٹ میڈ میں کام کر رہا تھا اور میری اہلیہ چھاؤنی کے ملٹری ہسپتال میں بطور ڈاکٹر متعین تھی، میرے ذمے فورٹ میڈ ہائی سکول میں نویں سے بارویں جماعت کے بعض طلبہ کو ریاضی پڑھانا تھا اور میں روزانہ پانچ مختلف کلاسوں کو پڑھاتا تھا. جیمز ان میں سے کسی گروپ میں نہیں تھا. اس نے میرے ایک طالب علم سے کہا کہ مجھے مسٹر احمد سے ملنے کی اجازت درکار ہے. اس طالب علم نے مجھ سے جیمز کی خواہش کا ذکر کیا میں نے بلا تکلف جیمز کو ملاقات کی اجازت دے دی. جیمز نے آتے ہی مجھ سے اسلام کے متعلق سوال کیے. میں نے مختصر طور پر اس کا جواب دے دیا اور ساتھ ہی میں نے جیمز سے پوچھا کہ کیا یہ سوال اس کے سوشل سٹڈیز کے کورس سے ہے؟ جیمز نے کہا کہ نہیں بلکہ میں نے چند ہفتے پہلے اس اسکول کی لائبریری میں اسلام کے بارے میں ایک کتاب دیکھی تھی. اس کتاب کو پڑھنے کے بعد مجھے اسلام سے دلچسپی پیدا ہو گئی. میں نے اس سے کہا….. اس ملک میں گورنمنٹ سکول میں کسی مذہب کے بارے میں تفصیلی بات کرنے کی اجازت نہیں ہے. بہتر ہوگا کہ ہم دونوں سکول سے باہر فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں تبادلہ خیال کیا کریں. ہم نے دن اور وقت طے کر لیا. اس طرح میری اور جیمز کی کئی ایک ملاقاتیں ہوئیں جو کہ اللّٰہ کے فضل سے بڑی سود مند ثابت ہوئیں. جیمز نے ہماری مسجد دیکھنے کی خواہش ظاہر کی. میں اسے قریبی شہر لورل میں ایک نہایت قدیم گھر میں لے گیا. جو کہ اس وقت بطور مسجد استعمال کیا جاتا تھا. میں نے اسے نماز کا طریقہ بھی بتایا، جیمز کو یہ بات بہت پسند آئی کہ ہم نماز میں براہ راست اللّٰہ تعالی کی بات کرتے ہیں. اس عبادت کے دوران کسی قسم کے میوزک سے مدد نہیں لیتے بلکہ پورے سکوں اور دلجمعی سے اللّٰہ تعالی کے پاس حاضر ہوتے ہیں. اس کے علاوہ عبادت گاہ اور عبادت کا طریقہ بہت سادہ ہے. مسجد میں کسی کی بھی تصویر آویزاں نہیں ہے. اس سے جیمز کو واضح ہو گیا کہ ہم محمد کی پرستش بالکل نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف ایک اللّٰہ کی عبادت کرتے ہیں۔
اس کے دوران کئی چیزیں میرے ذہن میں آئیں. پہلی بات یہ کہ جیمز اس وقت صرف 16 سال کا تھا اور اس ملک کے قانون کے مطابق ابھی سن بلوغت کو نہ پہنچا تھا. اس لیے میں نے سوچا کہ جیمز کے والدین اپنے بچوں کو دوسری راہ پر گامزن کرنے پر مجھے کسی قسم کی تکلیف پہنچا سکتے ہیں. علاوہ ازیں فورٹ میڈ ایک ملٹری چھاؤنی ہے اور اس کے متصل نیشنل سکیورٹی ایجنسی ہے جو کہ ملک بھر کے خفیہ کاموں کا مرکز ہے، مجھے خدشہ ہوا کہ کسی وقت بھی میرے لیے کوئی الجھن پیدا ہو سکتی ہے. جیمز نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس کا والد نیشنل سکیورٹی ایجنسی میں بطور آفیسر کام کرتا ہے. یہ سب باتیں میرے دماغ میں بار بار آتی اور الجھن میں ڈالتی رہیں۔
میں اور جیمز حسب معمول وقتاً فوقتاً تبادلہ خیال کرتے رہے. ایک دن جیمز نے مجھ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ مسلمان بننا چاہتا ہے. میں نے اس کو مسلمان بننے کا طریقہ بتایا جو کہ بہت آسان اور سادہ ہے. میں نے اسے یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کی کہ اللّٰہ تعالی کی نظر میں مسلمان بننے کے بعد دوبارہ کافر بننا نہایت برا عمل ہے. اس لئے اس کے لئے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اسلام کی مزید تحقیق کرے حتیٰ کہ اس کا دل اسلام پر پورا جم جائے۔
ابھی ہفتہ بھی نہ گزرا تھا جیمز نے پھر اصرار کیا کہ وہ مسلمان ہونا چاہتا ہے. اس بار میں نے اسے کلمہ شہادت پڑھایا اور وہ اللّٰہ کے فضل سے مسلمان ہو گیا. جیمز کے مسلمان ہونے پر ہم دونوں پر کئی ذمہ داریاں عائد ہو گئیں. ان میں سے ایک میری ذمہ داری یہ تھی کہ ہر اتوار جیمز کو اس کے گھر سے مسجد لایا کروں تاکہ وہ اس علاقے کے مسلمانوں کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کر سکے. نماز کے بعد میں اسے حروف تہجی سکھایا کرتا تھا. جیمز کو یہ تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا. اس نے جلد ہی قرآن پاک کو عربی میں پڑھنا شروع کر دیا. جیمز کو موسیقی بہت پسند تھی. اس لیے جلد از جلد اس نے اذان سیکھی اور اس مسجد کا موذن بن گیا. ایک نئے مسلمان موذن کی اذان کی تاثیر ہی نرالی ہوتی ہے. جس کو کسی نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے.
تیرا پیام اور ہے میرا پیام اور ہےعشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے
ایک دن میں حسب معمول جیمز کو اس کے گھر لینے کے لیے گیا. جونہی وہ گھر سے وارد ہوا میں اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا کیونکہ وہ سر سے پاؤں تک ایک خوبصورت عربی لباس میں ملبوس تھا. علاوازیں جیمز کے علاقے میں مقیم طلبہ اور ان کے والدین پہلے ہی چپکے چپکے میرے اور جیمز کے متعلق باتیں کرتے تھے. جب جیمز میری کار کے پاس پہنچا تو میں نے اس سے بے اختیار یہ کہا.جیمز تمہیں یہ لباس تبدیل کرنے کی ضرورت نہ تھی. مسلمان امریکی لباس میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں. جیمز نے میرا خدشہ بھانپتے ہوئے برجستہ کہا. مسٹر احمد آپ کا ایمان کمزور ہے. میں نے اس سے کہا کیا تمہارے والدین یہ لباس دیکھ کر تم سے ناراض تو نہیں ہوتے. اس نے کہا قطعاً نہیں وہ مجھے اس بارے میں بالکل تنگ نہیں کرتے بلکہ میری ماں روزانہ میرے لیے علیحدہ حلال کھانا تیار کرتی ہے یہ سن کر میری جان میں جان آئی اور میں نے اللّٰہ کا شکر ادا کیا۔
جیمز ابھی میٹرک کا طالب علم تھا اور اپنے ساتھیوں میں کافی مقبول تھا. اس دوران ایک دن جیمز میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اپنا نام تبدیل کر کے مسلم نام رکھنا چاہتا ہوں. میں نے اسے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ نیا نام سنتے ہی تمہارے ساتھی تم سے میل ملاپ چھوڑ دیں گے. امریکی نام سے تم ان سے خوب گھل مل سکتے ہو اور اسلامی اقدار کو ان تک پہنچا سکتے ہو. جیمز میری یہ سوچ سن کر دوبارہ بے اختیار کہنے لگا…….. مسٹر احمد! آپ کا ایمان کمزور ہے. بہرحال اس نے اپنا نیا نام جیمس حسین ابیبہ پسند کیا۔
بتدریج جیمز نے ہائی سکول کی تعلیم مکمل کر لی. اب وہ اس تلاش میں تھا کہ وقتی طور پر عارضی کام مل جائے. جس سے کے اخراجات کے لیے کچھ پیسے اکٹھا کرے، مغربی ممالک میں یہ بہت اچھا رواج ہے کہ والدین کی مالی استطاعت اور اعلیٰ منصب کے باوجود طلباء اپنے کالج کے اخراجات کی لئے فارغ وقت میں کچھ نہ کچھ کر لیتے ہی‍ں.کسی بھی قسم کے کام میں عار محسوس نہیں کرتے بلکہ معمولی سے معمولی کام میں فخر محسوس کرتے ہیں. علاوہ ازیں اپنی اس مصروفیت کو رشتہ داروں، دوستوں،اور پڑوسیوں سے نہیں چھپاتے.درحقیقت جوانی میں لگاتار مصروفیت ہی انسان کو بہت سی لغزشوں سے بچا لیتی ہے۔
اسی دوران میری اہلیہ صاحبہ نے امریکی ملٹری چھوڑ کر لورل میری لینڈ میں اپنا میڈیکل کلینک کھول لیا اور انھوں نے جیمز کو اپنے میڈیکل کلینک میں استقبالیہ پر متعین کر لیا. چونکہ میری اہلیہ صاحبہ کی میڈیکل پریکٹس اس موقع پر بالکل نئی تھی اور مریض کم تھے. اس طرح جیمز خاصہ وقت فارغ رہتا اور اس کو اسلامی کتب کا مطالعہ کرنے کا خوب موقع ملتا تھا۔
جیمز ہر سال عید بھی ہمارے ساتھ مناتا. ایک سال اللّٰہ کا کرنا ایسا ہوا کہ میں نے بفضل الٰہی رمضان کا پورا مہینہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں گزارا. یہاں تک کہ عید کی نماز بھی مکہ میں ادا کی. یہ میرے لیے پہلا موقع تھا کہ پورا رمضان مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں گزاروں. اس لیے میں بہت خوش تھا. لیکن دل ہی دل میں جیمز کے اکیلے پن کی فکر لاحق تھی. جب میں واپس امریکہ پہنچا تو میں نے مسجد میں چند احباب سے جیمز کے متعلق پوچھ گچھ کی تو وہ کہنے لگے کہ دوران رمضان جیمز نے کئی دینی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا. یہاں تک کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد میں اعتکاف بھی بیٹھا. حقیقت یہ ہے کہ وہ عبادت کے بہت سے امور میں ہم سے سبقت لے جاتا ہے۔
کچھ عرصے بعد جیمز نے کالج میں داخلہ لے لیا اور اس نے اسلامک ہسٹری کے ساتھ بی اے مکمل کیا. وہ اپنی یونیورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسیشن کا ممتاز ممبر تھا. اسی دوران اس نے ایک مسلمہ سے شادی کر لی. جو کہ ایک معزز انڈین مسلمان فیملی سے تعلق رکھتی تھی. اس کی اہلیہ کو بھی اسلام سے بڑا لگاؤ تھا. اس لیے دونوں نے یونیورسل اسلامک اسکول شکاگو میں بطور ٹیچر کام کرنا شروع کر دیا۔
میری آخری ملاقات جیمز سے اسناد کانفرنس، شکاگوں میں ہوئی اس بار میں نے یہ دیکھا کہ جیمز ایک مخصوص اسلامی لباس میں تھا. جس سے میں نے سمجھ لیا کہ جیمز اچھے عقیدے کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے۔
تقریباً یبا 20 سال بعد جیمز کی فیملی سے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا. جیمز امریکہ کے شہر شکاگو میں ایک معروف اسلامی ادارے میں بطور ایڈیٹر کام کر رہا ہے. اس ادارے کا نام اقرا انٹرنیشنل ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ہے. یہ اسلامی کتب اور رسالے شائع کرتا ہے اور دنیا بھر کے مسلموں اور غیر مسلموں کو مہیا کرتا ہے۔
جمز کے سسر ڈاکٹر امیر علی صاحب ایک اور اسلامی ادارے کے بانی مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں. اس ادارے کا نام اسلامک انفارمیشن اینڈ ایجوکیشن ہے. یہ بھی امریکہ کے شہر شکاگو میں ہے اور دنیا بھر کے مسلموں غیر مسلموں کو مفت اسلامی لٹریچر مہیا کرتا ہے. دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی لوگ امریکی جیلوں میں تبلیغی سرگرمیوں کے باعث اسلام قبول کر لیتے ہیں. یہ ادارہ ایسے نئے مسلموں کی تعلیم و تربیت کے لیے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔
جیمز کی اہلیہ اپنے والد کے اسی ادارے میں کام کرتی ہے. اس طرح جیمز کی پوری فیملی تن من دھن سے امت مسلمہ اور بنی نوح انسان کے لیے بے لوث خدمات انجام دے رہی ہے جو کہ ہمارے لیے قابل رشک ہے اور مشعل راہ بھی. اللّٰہ تعالی ان کو صحیح مسلمان بناۓ اور اپنے دین کا زیادہ زیادہ کام لے. آمین ثم آمین ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *