تحریر:سیّدہ سعدیہ یعقوب

تزکیہ تربیت
انسان کی فکری وعملی تربیت میں اس کے ماحول کا بڑا دخل ہوتا ہے. خواہ وہ ماحول گھر کا ہو یا مدرسے کا یا کسی بستی کا، انسان جیسے ماحول میں رہتا ہے اس کے اثرات وہ لاشعوری طور پر ضرور قبول کرتا ہے. ہم تو آئے دن دیکھتے ہیں کوئی شخص بہت صالح اور نیک ہے مگر اس کو کچھ ایام غلط لوگوں میں گزارنے پڑے تو اس غلط صحبت نے اس کی بہت سی اچھائیاں کو ختم کر کے بہت سی برائیوں کو نشونما دے دی. اس طرح کوئی بہت خراب آدمی ہے اس کو اچھے لوگوں کی معیت نصیب ہو گئی تو وہ گناہوں سے توبہ کر کے نیک راستے پر گامزن ہو جاتا ہے. اسی حقیقت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا۔
کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ او ینصر انہ او یمجسانہ.(بخاری)
پاکیزہ معاشرہ اور اچھی صحبت انسان کو نیک بننے کا موقع فراہم کرتی ہے. نیک بننے پر آمادہ کرتی ہے اور معاون و مددگار ہوتی ہے جبکہ بگڑا ہوا معاشرہ اور صحبت انسان کو بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے. اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
المرء دین خلیلہ فلینظر احدکم من یخالل. (ترمذی)
ترجمہ: “انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر ایک کو غور کرنا چاہیے کہ اس کی دوستی کس سے ہے۔
اگر کسی بیج کو اچھی زمین میں بویا جائے، مناسب آب و ہوا پہنچائی جائے، وقت پر کھاد دی جائے، ترائی کی جائے تو یہ کنن وہ بہترین پیداوار دے گا لیکن جب بیچ کو اچھی زمین نہ ملے، نہ ہی مناسب ہوا کا انتظام ہو، کھاد اور ترائی سے بھی وہ محروم رہے تو ایسا بیج گل سر کر رہ جائے گا اور اس سے کوئی نفع ظاہر نہ ہو سکے گا. یہی حال انسانی فطرت کا بھی ہے۔
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی تربیت کے سلسلے میں اس بات کا بھرپور خیال رکھا کہ ان کے لیے ایک ایسا معاشرہ اور ماحول فراہم کیا جائے جہاں ان کی صلاحیتیں تعمیری رُخ پر پروان چڑھ سکیں. پہلے پہل آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش کی کہ مکہ کی فضا کو اس کے لیے سازگار بنایا جائے مگر جب مکہ کی اجتماعی فضا نے یہ ثابت کر دیا کہ مکہ اس کے لیے تیار نہیں ہے. اس کے دامن میں جو موتی تھے انہیں وہ اسلام کے حوالے کر چکا ہے. اس کے پاس خس و خاشاک کے سوا کچھ نہیں اور وہ اپنی گلیوں اور وادیوں کی فضا کو یہ اجازت دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ تعمیری و ایجابی پہلو سے دعوت و تربیت کے لیے مفید ہوں. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ طائف کی طرف اٹھی مگر وہاں کی سنگدل قیادت نے پہلے ہی مرحلے میں یہ ثابت کر دیا کہ طائف کی زمین ظاہری شادابی اور تروتازگی کے باوجود روحانی تربیت کے لیے سنگلاخ ہے. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہیں حبش کی طرف گئیں اور آپ نے یہ سوچ کر اپنے اصحاب کو حبش کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی کہ حبش کے سرزمین کچھ اصلاح و تربیت اور دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے مکہ سے بہتر ہوگی. اگر چہ حبش میں شاہ نجاشی کا بلند کردار سامنے آیا. مگر وہاں کی عیسائی قیادت نے یہ واضح کر دیا کہ حبش کی زمین میں بھی رذالت و کمینگی اور مکروسیہ کاری سے خالی نہیں ہے. تب آپ کی نگاہ یثرب کی جانب اٹھی اور یثرب نے بادِ نسیم کے پہلے جھونکے کے آتے ہی یہ ثابت کر دیا کہ اسلام کو پروان چڑھنے اور ایک مستحکم ریاست کے وجود میں لانے کے لیے جو ماحول اور فضا درکار ہے وہ مدینہ میں بہم پہنچ سکتی ہے. اگرچہ اس کے لیے قربانیوں کی ضرورت پڑے گی. چنانچہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی اور آخر میں خود بھی اپنے رفیق خاص سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ تشریف لے آئے. ہجرت کا یہ مبارک سفر محض مجبوری و بے بسی کی وجہ سے نہیں کیا گیا تھا محض مکہ والوں کے مظالم و مصائب سے تنگ آ کر نہیں اختیار کیا گیا تھا بلکہ اس ہجرت کے پس منظر میں ایک عظیم مقصد پوشیدہ تھا اور وہ یہ تھا تحریک اسلامی کامیابی کی آخری مرحلے تک پہنچانے اور اپنے اصحاب کو اقامت دین کے لیے مکمل طور پر تیار کرنے کے لیے ایسی جگہ کی ضرورت تھی. جہاں کی اجتماعی فضا اس کے لیے سازگار ہو اور یہ سعادت یثرب کے حصے میں آئی جسے بعد میں مدینۃ الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نام سے پکارا جانے لگا۔
تاریخ اسلام کا یہ واقعہ تحریک اسلامی کے لیے ایک نیا رخ اور ایک نیا موڑ تھا. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے لیے ایک ایسا مقام چاہتے تھے. جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اندر کردار کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کر سکیں اور اسلامی حکومت سے متعلق تمام ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی صلاحیتیں ان میں پیدا کر سکیں اور ان کی عملی تربیت کر سکیں. اپنے اصحاب کی تربیت کے سلسلے میں آپ نے مقام و ماحول کی ساز گاری کا کس قدر اہتمام کیا اس کا اندازہ کرنے کے لیے ہجرت کا واقعہ ہی کافی ہے۔
انسان کی اصلاح و تربیت میں مقام و ماحول کو کتنا دخل ہوتا ہے اس کی وضاحت خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ سنا کر فرمائی. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
“تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا. اس نے 99 آدمیوں کو قتل کر ڈالا پھر اس نے پوچھا کہ زمین پر سب سے زیادہ علم رکھنے والا شخص کون ہے؟ چنانچہ اس کو ایک راہب کا پتہ بتا دیا گیا. وہ راہب کے پاس گیا اور کہا کہ میں 99 آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں، کیا میرے لیے توبہ کی کوئی صورت ہے؟ راہب نے کہا نہیں……. یہ سن کر اس شخص نے راہب کو بھی قتل کر دیا اسی طرح سو کا عدد پورا ہو گیا. اس نے پھر پوچھا کہ سب سے زیادہ علم رکھنے والا کون ہے؟ لوگوں نے اسے ایک عالم کا پتہ بتا دیا. وہ ان کے پاس آیا اور بولا کہ میں سو آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں تو کیا میرے لیے توبہ کی کوئی شکل ہے؟ عالم نے کہا” ہاں توبہ اور تمہارے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم ایسا کرو فلاں بستی کی طرف جاؤ. کیونکہ وہاں کچھ لوگ اللّٰہ کی عبادت کرتے ہیں تم ان کے ساتھ اللّٰہ کی عبادت کرو اور اپنی قوم کی بستی کی طرف نہ آنا کیونکہ یہ بری بستی ہے. چنانچہ وہ وہاں سے چل دیا. ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ اسے موت ا گئی، اس کی روح قبض کرنے کے سلسلے میں رحمت اور عذاب کے فرشتوں کے درمیان اختلاف ہو گیا.رحمت کے فرشتوں نے کہا یہ شخص خلوصِ دل سے توبہ کر کے چلا ہے. عذاب کے فرشتوں نے کہا اس نے آج تک ایک بھی اچھا عمل نہیں کیا. اتنے میں ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں نمودار ہوا. فرشتوں نے اس کو اپنا ثالث بنا لیا. اس نے کہا دونوں بستیوں کے درمیان کی زمین ناپو، اور وہ جس بستی سے قریب ہو اس کو اسی میں شمار کر لو. چنانچہ انہوں نے زمین کو ناپا اور اس کو اس بستی سے قریب پایا. جس کا اس نے قصد کیا تھا. چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے روح قبض کر لی. “(مسلم)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ صالح معاشرہ اور اچھے ساتھی سیرت و کردار کی تعمیر میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور بری بستی بگڑا ہوا ماحول، برے دوست، انسانوں کو بگاڑنے میں ممد و معاون ہوتے ہیں۔
اللّٰہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے لیے بھی اور اپنے متعلقین کے لیے صالح لوگوں نیک دوستوں اور پاکیزہ معاشرت کا انتخاب کریں. آمین۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *