تحریر:اسماء تاثیر
رمضان المبارک کا مقدّس اور بابرکت مہینہ ہم پر سایہ فگن ہو چکا ہے۔ مسلمان پورے اہتمام سے سحر و افطار،تراویح اور عید کی تیاریوں میں مصروف و مشغول ہیں۔ قرآن حکیم کی تلاوت کی صدائیں بیت اللّٰہ سے مسجد نبوی اور مشرق سے مغرب تک مساجد سے بلند ہو رہی ہیں۔ رکوع و سجود کے روح پرور نظارے ایمان کو حرارت بخش رہے ہیں۔ ایسے میں دنیا کے کئی خطے آتش و آہن کی بارش میں جل رہے ہیں۔جس میں کشمیر، شام اور بالخصوص فلسطین اس وقت یہودیوں کے ظلم و ستم کے ناقابل بیان اور قیامت خیز مظالم کا نشانہ بنا ہوا ہے۔دنیا کے کسی بھی ملک کے ایک شہر کے برابر رقبہ غزہ کا 40 کلومیٹر کا چھوٹا سا ٹکڑا جس کو تمام اطراف سے گھیر کر معصوم بچوں، عورتوں اور بے گناہ شہریوں کو خطرناک قسم کے کیمیکل اور بارودی اسلحے سے لقمہ اجل بنایا جا رہا ہے اور اس علاقے کو قبرستان میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ظلم سے نفرت کرنے والے تمام غیر مسلم یہاں تک دنیا بھر کے یہودی بھی اس ننگی جارحیت اور اعلانیہ نسل کشی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں لیکن امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں کے خون کے پیاسے ہو چکے ہیں کہ انہیں عدل و انصاف کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یہ تو وہ زمینی حقیقت ہے جو مسلمان دشمنی میں یہودی امریکی گٹھ جوڑ کر کے پرانی تاریخ کا نیا باب ہے لیکن اعصاب شکنی اور دل کو کاٹ دینے والا دکھ جگر پاش صدا ہے جو فلسطینی شہداء اور بستیوں کے کھنڈرات کو دیکھ کر برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ امت مسلمہ کا 57 ملکوں جن کے پاس ایٹم بم سے لے کر وقت کے جرید ہتھیار، سپر ٹیکنالوجی، بڑے بڑے لشکر، بحریہ، فضائیہ اور برّی افواج موجود ہیں۔ ان کے حکمرانوں اور سپہ سالاروں کی خاموشی اور سناٹا ایک سوالیہ نشان تو ہے سو ہے لیکن مسلمانوں بالخصوص پاکستانی قوم کی بے حسی اور بے ضمیری کے لیے کوئی موزوں لفظ نہیں ملتا! اس قوم کو مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی فکر نے صرف اسلام نہیں انسانیت سے محروم کر دیا ہے۔
اپنی تلخ نوائی پر سو بار معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ سارا دن روزہ رکھ کر شام کو پر تکلف افطاریاں کھا کر تراویح ادا کر کے اپنے آپ کو بہت نیک سمجھنے لگتے ہیں اور ایک ہزار میں سے 100، 50 صاحب ثروت لوگ اپنی زکوۃ،خیرات یا صدقہ فلسطین کے لیے دے کر گویا اپنا فرض ادا کر دیتے ہیں۔ انہیں وطن عزیز جو امت مسلمہ کا برادر ملک اور اسلام کا قلعہ ہے کلمہ طیبہ کی نظریاتی اساس پر موجود ہے آیا بلکہ اللّٰہ تعالی کی عظیم شان نعمت ہمیں عطا ہوئی۔ اس ملک نے ہر آڑے وقت میں اپنے دفاع کے لیے شاندار کردار ادا کیا بلکہ پوری امت کو ہر کڑے وقت میں سہارا دیا۔خواہ آسمانی آفات ہوں یا زمینی فطرات پاکستان نے اپنے برادرانہ حق ادا کیا اور اس کے نتیجے میں کئی بار بہت بھاری قیمت بھی چکانی پڑے جسکی تازہ ترین اور بڑی مثال افغانستان کے لیے ہماری قربانیوں کی طویل داستان ہے۔
آج ہماری حکومت اور عوام کو مل کر فلسطین کے لیے سوچنے اور کھڑا ہونے کی ضرورت ہے ۔ہمارے شاپنگ مالز ،میرج ہال اور مارکیٹیں دیکھ کر یوں لگتا ہے ہم دنیا کے ہر غم سے آزاد قوم ہیں۔ ہماری زمین پر سونے اور چاندی کی بارش ہوتی ہے اور دنیا میں صرف جشن منانے آئے ہیں یہ کسی باشعور قوم کا وطیرہ نہیں ہے۔ اپنی طرف بڑھتے ہوئے فطرات اور حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں اپنے رویوں میں سنجیدگی،متانت اور اعتدال اختیار کرنا ہوگا۔
ظلم کی چکی میں پستے ہوئے مظلوم مسلمانوں اور اندرون ملک طبقوں کی محرومیوں کے لیے کھڑا ہونا لازمی ہے۔ آئیے رمضان کے اس مقدس مہینے میں جسے کفر و اسلام کے پہلے معرکے کا مہینہ ہونے کا شرف حاصل ہے اور اسے ماہ فرقان بھی کہا جاتا ہے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کے اس سفر میں شامل ہو کر فلاح دین کی طرف گامزن ہو جائیں۔