رائٹر:مریم خنساء
قسط:2
بچوں پر اثرات
کوکا کولا بچوں میں بھی مقبول ہے اکثر سکولوں میں کوکا کولا اور پیپسی کولا ہی دستیاب ہوتی ہیں یا پھر کوکا کولا کی جعلی شکلیں ڈبل کولا وغیرہ۔ ڈاکٹر کے جان بگھی کے مطابق کیفیئن بڑوں کی نسبت بچوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے ان کی نشونما روک دیتی ہے۔اعصابی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ بچوں کے رات کو بستر پر پیشاب کر دینے کی ایک وجہ کوکا کولا کا استعمال بھی ہے۔ ڈاکٹر فریڈک ڈیمرن کا کہنا ہے کہ کوکا کولا کی عادت بچوں،نوجوانوں اور دل اور دماغ کے مریضوں کے لیے اس لیے مضر ہے کہ اس میں کیفین ہوتی ہے اور یہ بچوں نوجوانوں کے لیے خصوصاً نقصان دہ ہے۔( زہر لذیذ،ص24)
حاملہ خواتین
کوکاکولا کا جزو کیفین حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کے لیے بہت مضر ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق وہ سب مشروب جن میں کیفین شامل ہو،ہونے والے بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں لہذا ماں بننے والی خواتین کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے ۔(سکھی گھر،،ص14 جولائی 1998)
انہی مضر اثرات کی بنا پر مغرب میں کوکا کولا اعتراضات کی زد میں ہے۔ڈاکٹر ولیم ایف بوز نے اپنی ایک کتاب میں زہر سے متعلق ایک مشہور مقدمے کا ذکر کیا ہے جو 1993 میں امریکی ریاست ٹینس میں دائر ہوا۔اس میں 25 مقدمات کوکا کولا سے متعلق تھے،ان میں الزام تھا کہ یہ عادت پیدا کرنے والی چیز ہے ۔
کوکا کولا کمپنی کے چیئرمین ڈبلیو پی ہیت کا کہنا ہے کہ کوکا کولا کی بوتل میں 40 ملی گرام سے زیادہ کیفین نہیں ہوتی۔ بقول ان کے اتنی مقدار نقصان دہ نہیں ہوتی۔ یہ بات حقیقت کے منافی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ امریکہ کی شمالی ریاستوں میں ایک بوتل میں 60 ملی گرام اور جنوبی ریاستوں میں 20 ملی گرام کیفین ہوتی ہے بالفرض ایک بوتل میں 40 ملی گرام بھی ہو تو ہر روز مذکورہ بالا اعداد و شمار کے مطابق تین ٹن کیفین استعمال ہوتی ہے۔
مذکورہ مقدمے میں یہ ثابت ہونے پر کہ کیفین ایک زہر ہے جو کوکاکولا میں پایا جاتا ہے، کوکاکولا کمپنی کے وکیل نے کہا” بیشک کوکا کولا میں کیفین ہے مگر یہ ایک اضافی جز نہیں ضروری جز ہے جس کے بغیر کوکا کولا، کوکا کولا نہیں رہتا۔” کوکا کولا کے لکھے ہوئے اجزائے ترکیبی میں آپ کو کیفین کا نام نہیں ملے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ 1941 میں قانون کی رو سے امریکی انتظامیہ جس غذا کو پاس کرے، اس کے لیبل پر اجزاۓ ترکیبی ظاہر کرنے کی ضرورت رہتی۔ غذا اور دوا کی امریکی انتظامیہ نے اس میں کیفین وغیرہ کی اجازت دی ہے، نیز کیفین اس کا لازمی جز ہے۔ لہذا اسے لیبل پر ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں۔ غالباً اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوگی کہ کیفین کے حوالے سے کوکاکولا پر اعتراضات کرنے والوں سے محفوظ رہا جا سکے۔
کوکائین
افریقہ میں پائی جانے والی یہ نشہ آور دوا کوکا کے پتوں سے حاصل کی جاتی ہے۔یہ بھی کوکا کولا کا بنیادی جزو ہے۔ کوکا کولا کی بڑی بوتل کے دیے ہوئے اجزاء میں اس کا نام موجود ہوتا ہے۔ حکومت متحدہ عرب امارات نے نشہ آور اشیاء پر ڈاکٹروں اور جید علماء کی مستند تحقیق پر مشتمل ایک جائزہ پیش کیا ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ حشیش سے ملتی جلتی ہی ایک چیز کوکین ہے۔اس کا استعمال جسم کو کمزور اور عقل کو ضعیف کر دیتا ہے۔ یہ جنون اور پاگل پن کا سبب بنتی ہے اس کا عادی متفکر اور پریشان رہنے لگتا ہے اور لقمہ حلال کھانے سے قاصر ہو جاتا ہے جرائم پیشہ بن جاتا ہے اور کبھی خودکشی بھی کر بیٹھتا ہے۔(منشیات اور اسلام ،ص274)
فاس فورس کا تیزاب
دانتوں کے لیے ایک سریع الاثر زہر ہے۔ اکتوبر 1953 میں امریکی ماہرین دندان نے ایک رپورٹ بنام “وارننگ” شائع کی کہ میٹھے مشروبات اور دیگر مٹھائیوں سے دانتوں کی حفاظت کرنے والا قدرتی سفید مادہ تباہ ہو جاتا ہے۔ تیزاب دانتوں پر جراثیم پیدا کرتا ہے نیز یہ کہ کوکا کولا میں موجود تیزاب کی اتنی طاقت ہوتی ہے کہ دانت خراب ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ڈاکٹر کلائیو نے نیول میڈیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بیھتیڈا میری لینڈ میں چوہوں پر تجربہ کیا۔انہیں مکمل خوراک کے ساتھ کوکا کولا پینے کو دیا گیا تو چھ ماہ میں ان کے دانت گر گئے۔(زہر لذیر،ص27۔28)
ہماری سادہ لوحی یا بےوقوفی اور مغرب کی عیاری ملاحظہ ہو کہ ہم کوکا کولا کے طبی نقصانات سے تو ناواقف رہے مگر اپنے دینی اور قومی مشروب دودھ اور لسی میں بے شمار نقائص نظر آنے لگے، جس میں ہمارے بزرگوں کی کامیاب صحت کا راز تھا حقیقت تو یہ ہے کہ،
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تو نے
وہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
مسئلہ حلت و حرمت
حکومت متحدہ عرب امارات کی کتاب “منشیات اور اسلام” میں بتایا گیا ہے کہ
“صرف انگور سے تیار کردہ شراب ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز جو نشہ آور ہو اس کی ہر قلیل و کثیر مقدار حرام ہے۔ خواہ وہ عہدِ جاہلیت میں پائی جاتی ہو۔ خواہ عہدِ نبوت میں اس کا ذکر ملتا ہو یا بعد کی ایجاد ہو، یہ عہدِ قدیم سے لے کر آج تک مختلف اقسام اور مختلف ناموں سے تیار کی اور پی جاتی ہے مثلآ خمر،جعہ بیئر،تبع یا میڈ،حذر یا امل، حشیش، مارفین، کوکائین، ہیروئن، وہسکی، کونیاک،شمپیئن۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ۔”(ص:667)
اس میں کوکا کولا کے ایک جزو کو کائین کو بھی نشہ آور اور حرام اشیاء میں شمار کیا گیا ہے۔ یہی تحقیق ڈاکٹر محمد علی البار نے “الخمر بین الطب والفقہ” میں۔۔۔۔
“موقف الاسلام عن الخمر”میں ص46 اور 100 پر۔۔۔۔۔ اور سید السابق نے فقہ السنہ ص 326،383 پر پیش کی ہے۔
اس کتاب میں کوکائین کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ حشیش سے ملتی جلتی ایک چیز کوکائین ہے۔ کیفین بھی کوکائین کی طرح ایک نشہ آور چیز ہے، یہ دونوں کوکا کولا کا لازمی جزو ہیں۔ جب کہ نبی کریم کا فرمان ہے
” جس کی زیادہ مقدار نشہ آور ہے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔”
کوکا کولا کمپنی کا کہنا ہے کہ کوکا کولا میں شامل اجزاء اتنی قلیل مقدار میں ہوتے ہیں کہ اس سے نشہ نہیں ہوتا لیکن نبی کریم کا فیصلہ یہ ہے کہ:
” جس کا ایک فرق پینے سے نشہ آتا ہے اس کا ایک کف بھی حرام ہے۔” ایک فرق 20 ارطل یعنی موجودہ بیمارے کے مطابق 12 پاؤنڈ اور کف نصف پاؤنڈ ہے گویا کف، 12 پاؤنڈ کا 240واں حصہ ہے۔
نبی اکرم نے معاذ بن جبل اور ابو موسی کو یمن روانہ کرتے ہوئے یہ تاکید کی کہ
” لوگوں کو دعوت اسلام دو،بشارت دو، متنفر نہ کرو، آسانی کرو، سختی نہ کرو اتحاد سے رہو، اختلاف نہ کرنا۔”
ابو موسی اشعری نے عرض کیا “ہمیں دو قسم کے بارے میں فتوی دیجئے جو ہم یورپ میں بناتے ہیں” ایک تبع یعنی شہد کا نبیذ، نس میں شدت آ جائے اور دوسرا ندر مکئی کا نبیذ جس میں شدت آ جائے ۔”
ابو موسی کہتے ہیں آپ کو جوامع الکلم عطا کیے گئے تھے لہذا آپ نے فرمایا:
“ہر نشہ آور شے حرام ہے۔”
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اب ایسی بھی شدت کیا؟ یہ مشروبات عام ہیں،خود منگوا کر نا بھی پیے جائیں تو کہیں مہمان نوازی میں ہی پینے پر جاتے ہیں، ان سے کوئی کیسے بچے۔
یاد رہے کہ حلت و حرمت کا مسئلہ ایک نازک مسئلہ ہے جسے ٹھیس پہنچنے سے ایمان کا آئینہ چکنا چور ہو جاتا ہے۔
پیپسی کولا
اب آئیے پیپسی کی طرف۔ اس کا بظاہر رنگ وروپ کوکاکولا جیسا ہی ہے” متحدہ عرب امارات کی حکومت نے پروفیسر احمد صقر (بیروت) کا ایک مقالہ شائع کیا ہے جس میں بہت تحقیق کے بعد یورپ اور امریکہ کی ان چیزوں کی فہرست دی گئی ہے جن میں خنزیر کے جسم کا کوئی نہ کوئی جزو ضرور شامل کیا جاتا ہے۔ پیپسی کا بنیادی جزو پیپسین ہے جس میں خنزیر کا خون شامل ہوتا ہے لہذا پیپسی کولا کی حرمت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔( ترجمان القرآن، اپریل 1986)
کوکا کولا ہو یا پیپسی کولا ان غیر ملکی کمپنیوں میں بیشتر خام مال بیرونِ ملک سے آتا ہے، ان واضح حقائق کی موجودگی میں انھیں کسی طرح بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔
کوکا کولا کی دنیا بھر میں قائم فیکٹریاں امریکہ کی مرکزی کمپنی کی شاخیں ہیں۔ ان کی آمدن ایک ہی ہاتھ میں جمع ہوتی ہے۔ اپنے صحت بخش مشروب چھوڑ کر ان کے نقصان دہ اور حرام مشروبات کی صرف جدید اعلیٰ معیارِ زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے خریدنا کیا قومی سرمایہ غیروں کو منتقل کرنے کی سازش نہیں؟
ایک اور حساس پہلو
ورلڈ کپ فٹبال 1996 کے سلسلے میں سپین کی کوکا کولا کمپنی نے ایک کین تیار کیا۔ جس میں سعودی عرب کا کلمہ طیبہ والا پرچم کارٹون شکل میں بنا ہوا ایک کتا اس پرچم کو ہاتھ میں اٹھائے چل رہا ہے۔( نعوذ باللہ) اس قسم کے ہزاروں کین سڑکوں پر بکھرے ہوئے لوگوں کے پاؤں تلے روندے جا رہے ہیں۔( روزنامہ جنگ، 30جون، 1994)
کوکا کولا کمپنی پاکستانی ہو یا اسپین کی، سب ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں۔ ان کے کار پردازوں کی پالیسیاں ایک ہی مرکزی کمپنی سے بن کر آتی ہیںم غیرتِ دینی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ خبر آنے کے بعد تمام مسلمان ممالک ان کمپنیوں کا بائیکاٹ کر دیتے۔ اپنے خون پسینے کی کمائی اسلام دشمن، عیار و مکار سازشیوں کے حوالے کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔
مذکورہ بالا طبی نقصانات، ثقافتی یلغار اور حلت و حرمت کے مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ قارئین کی عدالت میں ہے کہ کیا ان کا ضمیر اب بھی ان کو اسلام کے خلاف بغض سے بھرپور کالے دل والے گوروں کے کالے مشروبات پینے کی اجازت دیتا ہے ورنہ کہنا پڑے گا کہ:
“حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔”