تحریر:مریم خنساء

قسط:1

ہندوستان میں برسہا برس تک لسی اور دودھ مہمان نوازی کا لازمی جز رہا ہے۔انگریزوں کی محکومیت نے لسی اور دودھ رخصت کر دیے اور ان کی جگہ چائے نے لے لی۔انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستانی اس نام سے بھی نا آشنا تھے۔گرم ملک اور کھانے پینے میں طبعی خواص کو مدنظر رکھنے والے ہندوستانیوں کے مزاج کے علی الرغم ا سے کامیاب تشہیر کے ذریعے ان کی بنیادی ضرورت بنا دیا گیا۔اس کا پہلا اشتہار تھا۔
“گرم چائے کے ہر گھونٹ کے ساتھ گرمی دور۔

پہلے پہل تو یہ خیال صرف چائے متعارف کرنے والوں کا تھا لیکن آج بر صغیر کا ہر فرد اس کا اسیر ہو چکا ہے۔ہماری گوری لسی کی جگہ کالی چائے تو برطانوی گوروں کا تحفہ تھی۔اسی دور میں امریکی گوروں کا جذبہِ کرم فرمائی بھی جوش میں آیا،انہوں نے بھی ہندوستانیوں کو ایک کالے مشروب کا تحفہ عنایت کیا جس کا نام تھا “کوکاکولا”۔
19ویں صدی کے اواخر میں ایجاد ہونے والے اس مشروب کو ہندوستان میں رواج دینے کے لیے بلاشبہ گوروں کو خاصی محنت کرنا پڑی،ہندوستانی ثقافت اس کی مقبولیت کی راہ میں حائل تھی مگر انہوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔کوکاکولا کے توصیفی کوپن چھپوا کر تقسیم کیے گئے۔نام اور خاص اسٹائل رجسٹرڈ کروایا۔آغاز میں اس کی قیمت انتہائی معمولی رکھی گئی۔پرکشش تشہیر کے طریقے اختیار کیے گئے چنانچہ اسے مقبولیت حاصل ہو گئی۔اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں اس کی شاخیں قائم ہیں اس کی تقلید میں کئی مشروب بازار آئے مگر اس کے سامنے کوئی دوسرا چراغ نہ جل سکا اگر کوئی مشروب مقبول ہوا بھی تو جلدی کولا نے اس کو مات دے دی۔
مہمان نوازی کو دنیا پر بلا شرکت غیر اس کا راج ہے۔ دفتر ہے تو کوک گھر ہے تو کوک،دعوت ہے تو کوک…. کبھی دودھ سوڈا سیون ایپ یا ٹیم سے بنایا جاتا تھا۔ مگر اب اس پر بھی کوک ہی کا تسلط ہوتا جا رہا ہے۔ 24 اگست 1963 میں بزنس ویک کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے 120 ممالک میں روزانہ سات کروڑ پچاس لاکھ بوتلیں فروخت ہوتی تھیں آج یہ تعداد کئی گنا بڑھ چکی ہے۔

زہر لذیذ
پاکستان میں ہر جگہ دیواروں، ہوٹلوں اور دکانوں پر کوکاکولا اور اس سے ملتے جلتے مشروب پیپسی کا ہی اشتہار نظر آتا ہے۔ میزبانی کے مخصوص لوازمات ملکی اور مذہبی ثقافت کے نمائندہ ہوتے ہیں۔ معراج کے موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ اور شراب پیش کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے دودھ پسند فرمایا جس پر جبرائیل علیہ السلام نے دودھ کی اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحسین فرمائی اور کہا کہ:
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کو پسند کیا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم شراب اٹھا لیتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت گمراہ ہو جاتی۔”
(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
گویا دودھ ہماری دینی ثقافت کا اہم اور مسنون جزو ہے،اس کی دوسری شکل لسی بھی ہے ہمارے ہاں مہمان نوازی کا ایک خاص جز وہی ہے۔

اس کے مقابلے میں کوکاکولا ایک امریکی صنعت ہے جامعہ کراچی کے جریدے “تشہیر” نے اس کے ثقافتی اثرات کا جائزہ یوں لیا ہے:
اگر معاشرے پر کوکا کولا کے اثرات کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے دنیا کے تقریبا ہر ملک میں اپنی اہمیت اور حیثیت کو دوسرے طریقوں کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کے ذریعے قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے….
امریکہ نے…… اپنی ثقافت کو اس غیر محسوس انداز میں روشناس کروایا کہ آج کثیر ممالک امریکی کلچر کے نرغے میں پھنس چکے ہیں۔یہاں تک کہ ان کی اپنی ثقافت ان کے اپنے لیے ثانوی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔امریکہ نے دوسرے طریقوں کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافت کو روشناس کرانے کے لیے کوکاکولا کا انتخاب شاید اس لیے کیا کہ یہ اس کی مشہور و معروف پروڈکٹ ہے۔اس مقصد کے لیے دنیا کے چھوٹے بڑے تمام ممالک میں کوکا کولا کمپنیاں قائم کی گئیں۔پھر اس کی تشہیر کے لیے ہر دور میں اس طرح کے اشتہارات دیے گئے جن سے امریکی ثقافت کا پرچار ہوتا ہے۔مثلا پی ٹی وی پر(ہر لمحہ کوکا کولا always CocaCola) کے سلوگن کے ساتھ چلنے والے اشتہار مکمل طور پر امریکی کلچر کی عکاسی کرتے ہیں۔بالکل اسی انداز کے اشتہار دنیا کے بیشتر ممالک میں صرف زبان اور ماڈلز کے فلک کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔
(ص20، ازشایہ فخری، ہر لمحہ کوکاکولا)
اس مضمون میں کوکا کولا کے دو اشتہارات دیے گئے ہیں جن سے اس نقطہ نظر کی تصدیق ہوتی ہے۔ایک 1943 میں پیش کیا جانے والا universal symbol of cocacola ——-the amercan way of lifen اور دوسرا 1975میں پیش کردہ اشتہار look up America what we have got
ہمارے ہاں بوتل کو منہ لگا کر پینا بد تہذیبی تصور کیا جاتا ہے مگر گوروں کی محکومیت سے”جو تھا نہ خوب بتدریج وہی خوب ہوا”یہ مصداق تہذیب کا معیار بدل گیا۔ان کی تقلید میں بوتل کو منہ لگا کر پینا اعلیٰ تہذیب کی علامت بن گیا۔اسلام نے مسلمانوں کو بیٹھ کر پینے کی ہدایت کی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہو کرپانی پیتے دیکھا تو فرمایا:
“قے کر دو”
اس نے عرض کیا:
“کیوں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
“کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ بلی تمہارے ساتھ پانی پیے گی”
اس نے کہا:
نہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“بلی سے بدتر جی شیطان نے تمہارے ساتھ پیا ہے۔”
(مسند احمد ،بہ روایت ابو ہریرہ)
کوکا کولا کے اشتہارات نے کھڑے ہو کر پینے کی مثال پیش کی۔جس کے کامیاب اثرات نے مسلمانوں کے ذہنوں سے کھڑے ہو کر پینے کے فعل کی کراہت کا احساس مٹا دیا،چنانچہ اب ٹی وی میں قومی ثقافت کے مزعومہ نمائندے کھلاڑی بوتل کو منہ لگا کر کھڑے ہو کر پیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اس پس منظر میں یہ تجزیہ غلط نہ ہوگا کہ امریکی نیو ورلڈ آرڈر کی پیش بندی کے لیے کوکاکولا کی ثقافتی حیثیت ایک ایسے فعل پاکی سی ہے جس نے ہماری ثقافت کو اپنے پاؤں تلے روندنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اب ہمیں اپنے سفید مشروب لسی میں بے شمار نقائص نظر آنے لگے ہیں اور ہم گوروں کے مشروبات”چائے”،”کوکا کولا”،”پیپسی”اور “کافی” کی کالی زلفوں کے اسیر ہو گئے ہیں۔

طبی پہلو
آئیے ذرا ان میں سے کوکا کولا اور پیپسی کولا کے طبی اثرات کا بھی جائزہ لیں۔کوکا کولا کے اجزاء انگور کا رس،چینی،کیفین کوکا کے پسے ہوئے پتے،کولا اور فاسفورس کا تیزاب ہیں۔
(حوالہ زہر لذیز)
اس کے طبی اثرات پر پاکستان ہیلتھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے جو جان کے بگھی۔ایم،ایس پی،ایچ امریکہ،لو مالنڈا یونیورسٹی، سکول آف پبلک ہیلتھ نے ترتیب دیا ہے اور نظر ثانی بشیر خزاں ایم،پی،ایچ امریکہ سابق چیئرمین شعبہ ہیلتھ نے کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس کے جزو کیفین کے متواتر استعمال سے بے خوابی،بے چینی،اعصابی کمزوری، ہاتھوں میں رعشہ،پیٹ میں جلن، معدے میں تیزابیت،بھوک کی کمی، دل کی حرکت میں تیزی اور باقاعدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ شراب کی طرح اعصاب کو محرک کر کے سکون پہنچاتی ہے۔اس لیے گھریلو خواتین،طالب علم اور دفتروں میں کام کرنے والے تھکاوٹ دور کرنے کے لیے اسے وسیع پیمانے پر پیتے ہیں۔ اس سے اعصاب متاثر ہوتے ہیں۔تھکاوٹ اس بات کی علامت ہے کہ اب آپ کے جسم کو آرام کی ضرورت ہے،آرام کرنے کی بجائے مسکن دوا کھانے سے تھکاوٹ ختم نہیں ہوتی،اندر ہی اندر رہتی ہے،البتہ تھکاوٹ کا احساس ختم ہو جاتا ہے، یہ عمل بار بار دہرانے سے جسم کا ذخیرہ قوت خرچ ہو جاتا ہے، کوئی بھی نشہ آور جس سے اعصابی ہیجان پیدا ہو۔ وقتی طور پر طاقت کے سکون کا احساس تو دلاتی ہے لیکن اس کا اثر ختم ہونے کے بعد بے چینی ہونا لازمی ہے، جس قدر زیادہ طاقت یا سکون محسوس ہوگا اسی تناسب سے بے چینی کا احساس ہوگا۔
ڈاکٹر ہارسٹ نے چند اشخاص پر تجربہ کیا تو مسکن دوا دینے کے 24 گھنٹے بعد ان آدمیوں نے اسی تناسب سے کمزوری اور بے چینی محسوس کی جس تناسب سے انہیں طاقت اور چستی کا احساس ہوا تھا ۔
(زہر لذیذ ص 20)
کوکا کولا بھی انہی اثرات کا حامل ہے کیفین خواہ مناسب مقدار میں ہی استعمال کی جائے،معدہ میں تیزابی مادہ بڑھاتی ہے، چند مویشیوں کو زیادہ۔مقدار سے یکدم اور وقفے سے تھوڑی تھوڑی مقدار دینے سے کچھ دیر بعد ان کے معدے میں ناسور ہو گئے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *