اسلام کی آمد کے روز اول سے ہی دشمنان اسلام یہود و نصاری کی کوشش رہی ہے کہ اگر کسی طرح اسلام کے قصر نبوت میں کوئی شگاف ڈال دیا جائے تو ان کا کام آسان ہو جائے گا اور پھر امت مسلمہ کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔ لیکن 14 سال گزرنے کے بعد بھی دشمنان اسلام اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور ہر بار انہیں بری طرح منہ کی کھانی پڑی۔
برصغیر پر جب انگریزوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے اپنے غاصبانہ اقتدار کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت سے مسلمانوں کیساتھ پیش آئے۔پھر انہوں نے مسلمانوں کے دین کا پوری طرح گہرائی سے مطالعہ کیا اور تحقیق سے معلوم کیا کہ وہ کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کرتے اور دین کے لیے قربان ہونے اور شہید ہونے کے لیے بھی آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں،چنانچہ انہوں نے اپنی تحقیق سے دو بڑے نتائج اخذ کیے۔
اول انہیں معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اندر خالص توحید کا جذبہ ایسا احساس پیدا کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے انسان اللہ کے سوا ذہنی طور پر کسی کی غلامی کے لیے تیار نہیں ہوتا دوسرا نکتہ جذبہ جہاد ہے،جس میں مسلمانوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے دین اور عقیدہ توحید کی حفاظت کے لیے جہاد کریں اور کسی کافر،مشرک،طاغوت کے آگے سر نہ جھکائیں۔ چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے اور یہ گھاٹے کا سودا نہیں کیونکہ یہ شہادت کی موت ہے اور شہید کے لیے اللہ سب سے زیادہ انعام و کرام رکھتے ہیں۔
چنانچہ انہی دو نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنی ایک سٹریٹجی (حکمت عملی)بنائی انگریزی غلبہ کے آغاز میں ہی عرب میں فضیلت الشیخ محمد بن عبدالوھاب کے عقیدہ توحید کی بنیاد پر چلائی جانے والی تحریک خاصی مقبول ہوئی یہاں تک کہ جس عرب میں دوبارہ غیروں کے سے لے کر درختوں تک کی پوجا شروع ہو گئی تھی وہاں نئے سرے سے توحید کا غلبہ ہوا۔ شرک کے سارے مظاہر ختم ہو گئے اور عصر حاضر میں قرآن و سنت کی بنیاد پر سعودی عرب جیسا پہلا اسلامی ملک دنیا میں وجود میں آیا۔
محمد بن عبدالوھاب کی اس تحریک سے وقت کے سپر پاور برطانیہ کو جس کا سورج دنیا میں کہیں غروب نہ ہوتا تھا اب اپنے غلبے و اقتدار کا سورج ڈوبتا ہوا محسوس ہونے لگا چنانچہ انگریزوں نے توحید کی اس خالص تحریک کو بدنام کرنے کے لیے یہ ہتھکنڈا استعمال کیا کہ خالص عقیدہ و تمہید کے حاملین گستاخ رسول کہہ کر بدنام کرنا شروع کردیا۔
دوسرے نمبر پر جہاد کا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے برصغیر میں بھی برطانیہ کا اقتدار بری طرح لرز رہا تھا۔اس کا سدباب اور کاؤنٹر کرنا انہیں سب سے زیادہ مشکل محسوس ہوا،بالاخر بڑی سوچ و بچار کے بعد وہ اس نقطے پر پہنچے کہ مسلمانوں سے جہاد اس وقت تک ختم نہیں کر سکتے جب تک ختم نبوت کا مسئلہ ختم نہ کیا جائے کیونکہ ان کے نزدیک کسی نئے نبی کے کہنے پر ہی مسلمان جہاد چھوڑ سکتے ہیں ورنہ مسلمان کی صورت یہ ہاتھ چھوڑنے والے نہیں۔
چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ انگریزوں نے جب مرزا غلام احمد کی صورت میں اپنا خود کاشت شدہ پودا جھوٹا نبی کھڑا کیا تو اس نے پہلے نبوت کادعوٰی کیا اور پھر اپنی چکنی چپڑی باتوں اور تاویلوں سے مسلمانوں کے ایک طبقے سے اپنے آپ کو نبی منوا لیا اور کچھ چیلے چانٹے بھی تیار کر لیے تو حالات موافق دیکھتے ہی اس نے اصل ہدف جہاد پر ضرب لگائی اور جہاد کے خاتمہ کا بے تکرار اعلان کرنے لگا کیونکہ یہی تو اس کا اصل ہدف و منتہا اور جھوٹا نبی بننے کا اصل مقصد و مشن تھا۔چنانچہ کذاب مرزا غلام احمد نے اپنی کتاب میں لکھا
آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا خدا کے حکم کے ساتھ بند کیا گیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھائے اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو سال پہلے فرمایا کہ مسیح موعود کے آنے پر تلوار سے جہاد ختم ہو جائیں گے سو اب میرے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں یعنی ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا
ایک اور جگہ اس ملعون نے اپنی انگریز نوازی کا حق ادا کرتے ہوئے لکھا
مجھ سے سرکار انگریز کے حق میں جو خدمت ہوئی وہ یہ تھی کہ میں نے 50 ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپوا کر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامی میں اس مضمون کے ساتھ شائع کیے گئے کہ گورنمنٹ انگریزہم مسلمانوں کی محسن ہے۔ لہذا ایک مسلمان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ اس گورنمنٹ کی سچی اطاعت کرے اور دل سے اس دولت کا شکر گزار اور دعا گو رہے اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبان یعنی اردو فارسی اور عربی میں تالیف کر کے اسلام کے دو مقدس شہر و مکہ اور مدینہ بھی بخوبی شائع کر دیں۔ روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ اور بلاد شام اور مصر کابل اور افغانستان کے متفرق شہروں میں جہاں تک ممکن تھا اشاعت کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلط خیالات چھوڑ دیے جو نہ فہم ملاؤں سے ان کے دلوں میں تھے۔
غرض کذاب مرزا قادیانی کا خبث باطن کھل کر سامنے آگیا کہ اس کا اصل ہدف مشن کیا ہے چنانچہ ایک طرف انگریزوں نے پہلے ان کو بدنام کیا اور لاکھوں کی تعداد میں انہیں پھانسی پر لٹکایا اور جو باقی عام مسلمان بچے تھے ان میں جہاد کا مسئلہ سرے سے ہی ختم کرنے کے لیے اس جھوٹے نبی کے ذریعے جہاد کے خاتمے کا اعلان کروا دیا لیکن دنیا جانتی ہے کہ کذابوں کا مشن نہ پہلے کبھی پورا ہوانہ ائندہ پورا ہوگا۔ انشاءاللہ۔
اس کذاب کا انجام سب سے پہلے تو دنیا نہیں یہ دیکھا کہ اس نے ممتاز اہل حدیث عالم دین اور فاتح قادیان مناظر اسلام مولانا ثنا اللہ امرتسری کو مباہلے کا چیلنج دیا کہ جو جھوٹا ہوگا وہ سچے کی زندگی میں مر جائے گا۔چنانچہ مرزا قادیانی 26 مئی 1908 کو لیٹرین میں پیچش کے ہاتھوں بیت الخلاء میں اپنے انجام کو پہنچا اور رہتی دنیا تک نشان عبرت بن گیا اور مولانا ثنا اللہ امرتسری اس کے مرنے کے بعد 40 سال تک زندہ رہے۔
ہماری حکومت اب بھی ایسے بہت سے احکامات کرتی ہے جن میں قادیانی کو بھی حصہ دیا جاتا ہے جبکہ اس سے مکمل طور پر باز رہ کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے۔
(منجانب ادارہ)