تحریر: ام شہزاد محمود

آج پورا عالم اسلام اگرچہ نظریاتی بحران کا شکار ہو چکا ہے مگر پھر بھی مسلمان اپنی زندگی کو امن و سلامتی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے اسوۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کی پیروی کرنا پسند نہیں کریں گے۔
بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ
مسلمانوں کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو وابستگی ہے وہ عمرانی وحدت کے شعور کی بنیاد پر ہے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی اور عقیدت و احترام ہی تمام مسلمانوں کو یکسانی کردار اور پسند و ناپسند کا یکساں معیار فراہم کرے گا۔جو اسلامی معاشروں کو امت واحد ہونے کا احساس دلا کر اور جغرافیائی حدود سے نکال کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پروان چڑھائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۃ مبارکہ قیامت تک کے مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے لائحہ عمل ہے اور انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ جس میں انسانی زندگی کی اصلاح،اللہ تعالی کی رضا اور محبت کو نصب العین بنا کر تمام تر کوششوں کے نتیجے میں ہوئی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے لے کر ہجرت تک نازل ہونے والی سورتوں کی تعلیمات کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تربیت کے مراحل سے گزار کر اللہ تعالی کے مطلوب بندے بنایا تھا۔ ان سورتوں کی تعلیمات میں ایمان بالغیب اور ایمان بالآخرت کو مکمل پختگی کے درجے میں اختیار کرنے کا تقاضہ کیا گیا تھا۔چنانچہ طبعی خواہشات اور تقاضوں کو اللہ تعالی پر مکمل ایمان اور یقین کے تحت مغلوب کر کے اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق زندگی کو ڈھالا جائے۔پھر جن باتوں سے منع کیا گیا ان سے رک جائیں اور جن کا حکم دیا گیا ہے ان کو اپنایا جائے اور یوں اللہ کے پسندیدہ بندوں میں شامل ہو جائیں اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوں۔اسلام کی تاریخ کا یہ پہلا دور بعثت سے لے کر ہجرت مدینہ تک کا ہے اور دوسرا دور ہجرت مدینہ سے لے کر فتح مکہ تک کا ہے۔جس میں مثالی معاشرہ برپا کرنا اور مدنی سورتوں میں نازل ہونے والے کام کے عین مطابق معاشرتی معاشی اور سیاسی زندگی کو سنوارنا اور ڈھالنا ہے تاکہ روحانیت کی اس فضا میں فرد اور معاشرہ ہر قسم کے خوف و غم سے نجات پا کر اخلاق کے اعلٰی درجے پر پہنچ جائے اور ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے۔
دراصل قرانی تعلیمات سے ہی انسانی ضروریات،انسانی مسائل ان کے حل کا طریق کار معلوم ہوتا ہے اس لیے اسلام ہی دین حق ہے اور اس کو تمام ادیان پر غالب کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔
فرمان باری تعالی ہے
{هو الذي ارسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على دين كله ولو كره المشركون}
(سورۃ التوبہ)
ترجمہ:
“وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافی ناخوش ہی ہوں!”۔
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر ہجرت مدینہ اور پھر ہجرت سے فتح مکہ تک دو مراحل بین الاقوامی سطح کے انقلاب کے لیے تیاری کا درجہ رکھتے ہیں اور فتح مکہ سے حجۃ الوداع تک جو تیسرا مرحلہ ہے اس کو پیش نظر رکھنے سے بین الاقوامی صدا کا انقلاب ممکن ہوگا اس لیے کہ حجۃ الوداع کے دن نازل ہونے والی آیات قرآنی میں تکمیل دین کا اعلان ہوا تھا۔اس کا مطلب ہے کہ تمام ادیان پر دین حق کا غالبہ ہوا تھا اور رہنمائی مکمل ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیغمبرانہ مشن میں کامیاب ہوئے تھے۔
اج عالم اسلام اس حال میں مبتلا ہے کہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی سطح پر اسلامی اقدار سے منہ موڑ کر کفر و نفاق کے اندھیروں میں گم ہیں اور اسلامی اقدار پامال ہو چکی ہیں۔اسلامی قوانین کا نفاذ بھی اگر کہیں ہے تو بے اثر ہے کیونکہ قانون کا اثر اقتدار کے ساتھ وابستہ ہے۔اقتدار کی کمزوری قانون کو کمزور اور بے اثر کر دیتی ہے۔افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اسلامی قانون کا نفاذ اقتدار کمزور ہونے پر بے اثر ہو گیا اور چھن جانے پر ختم ہو گیا۔
ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اسلام کے دور اول میں جو انقلاب آیا تھا وہ قانون سازی کی وجہ سے نہیں آیا تھا بلکہ اسلامی انقلاب کی وجہ سے اسلام میں اقتدار کی حفاظت کے لیے قانون سازی کی گئی تھی۔
اب مسلمانوں کے موجودہ حالات میں امت مسلمہ کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ الحسنٰی کے پورے نظام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر غلبہ دین حق بلند ترین نصب العین ہے۔اور یہ کہ انسانی اصلاحی کوششوں سے پاک ریاست وجود میں آنے کے بعد اسلامی ریاست کے نظام اور اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے قانون سازی کی جائےپھر انفرادی،اجتماعی،معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں کو مضبوط اور مستحکم رکھنے کے لیے قانون سازی ہو اور نفاضل قانون کے ذریعے کسی قسم کی ناہمواری اور بے اعتدالی نہ پیدا ہو۔یوں مضبوط اور پاک ریاست کا وجود بین الاقوامی سطح پر غلبہ کا باعث بنے گا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ رہنمائی اور قیادت میں پاک ریاست پیدا کرنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر غلبہ ہوا تھا اور تکمیل دین کا اعلان کیا گیا تھا،گویا رہنمائی بھی مکمل ہو چکی ہے۔
آج ہمیں اسوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا مشن اور مقصد یہ بنانا ہے کہ غلبہ اسلام کے ذریعے تمام ادیان کو مغلوب کرنا ہے۔قران حکیم کے آغاز میں سورۃ فاتحہ رکھی گئی ہے۔یہ دعا فطرت انسانی سے اٹھنے والی پکار ہے جو انسانی ضرورت اور طلب کو بیان کر رہی ہے۔اور پھر سورۃ البقرہ کے آغاز میں ہی ایمان بالغیب کا مطالبہ کر کے کامیابی کا یقین فراہم کیا گیا ہے اور وضاحت کی گئی ہے کہ غلبہ حق کے نتیجے میں ایمان کفر اور نفاق کے رد عمل ظاہر ہوں گے اور ان رد عمل کی وضاحت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اتحاد امت کے لیے ایک واضح نصب العین سامنے رکھنا لازم ہے اور ایمان بالغیب کی بدولت کامیابی کا یقین کامل بھی رکھنا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آج امت مسلمہ کو متحد کرنے کے لیے ایک واضح نصب العین سامنے رکھا جائے کیونکہ امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ ہو رہا ہے،معاشی نا ہمواری اخلاقی زوال کا باعث بن چکی ہے،تفرقہ بازی نے توڑ کے رکھ دیا ہے۔اس زوال پذیری کی وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم غور کریں اور اصلاح کی طرف قدم اٹھائیں تو اللہ کی رحمت ضرور شامل حال ہو جائے گی۔
معاشی ناہمواری کی بنیادی وجہ سودی نظام ہے۔اگر آج امت مسلمہ سودی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اس کے خاتمے کو اپنا نصب العین بنا لیں تو اہل ایمان کے خلاف اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلانِ جنگ ختم ہو جائے گااور یوں امت مسلمہ کی طرف سے کفار کی معاشی گرفت سے آزادی کا اعلان ہو جائے گا جو اس وسیع معاشی فساد سے انسانیت کو آزاد کرائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیا تھا کہ سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہو جائے اس کا آخری انجام قلت اور کمی ہی ہے،اس لیے حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاشی فساد کی جڑ پر آخری ضرب اپنا حکم سنا کر لگا دی تھی۔
سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 130 میں اہل ایمان کو سود چھوڑ دینے پر کامیابی کی ضمانت بھی دے دی گئی ہے۔لہذا اب اصلاح کی صورت یہی نظر آرہی ہے کہ اللہ تعالی کی سرزمین پر عملاً اسلام کا پورا نظام نافذ ہو تو ہی معاشی فساد کی جڑ ختم ہوگی۔یوں ان باغیوں کو ختم کیا جائے گا تو معاشی امن سے معاشرتی اخلاقی رویے جنم لیں گے۔
حق و باطل کی اس ازلی اور ابدی جنگ کے پیش نظر عالمِ اسلام کو متحد کرنے کے لیے اس واضح نصب العین کے نتیجے میں ایک وسیع تضاد ابھرے گا جو عالم اسلام کو متحد کرنے کا محرک ثابت ہوگا۔پھر اتحادِ عالمِ اسلام کی بدولت بین الاقوامی سطح کا غلبہ نصب العین بن جائے گا جو غلبہ اسلام کی ابتدا ثابت ہوگا اور پھر نور ایمانی کی مستقل حدت سے عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گرم لہو بہ جانے کو بے قرار اور بے تاب ہو کر غلبہ اسلام کو انتہا تک پہنچائے گا۔اس ضمن میں امام مالک کا یا قول پیش نظر رہنا چاہیے کہ
“اس امت کے دور اخر کی اصلاح بھی اس طرح ہوگی جس طرح اس کے دور اول کی اصلاح ہوئی تھی۔”
اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام کو اپنانے سے سچ ثابت ہو جائے گا،کیونکہ پیغمبرانہ انقلاب ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مشن تھا اور اسی مقصد کے حصول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بسر ہوئی تھی۔اللہ تعالی نے سورہ کی بقرہ کی آیت 275 میں فرمایا ہے کہ سود کھانے والے قیامت کے دن اس حال میں اٹھیں گے جیسے کہ اس شخص کو شیطان نے چھو کر باؤلا بنا دیا ہو۔لہذا ہمیں اس دنیا میں ہوش کی ناخن لینے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان تک کی بھری محفل میں سب کے سامنے باولے نظر آئیں۔آج ہمیں پر امید ہو کر سوچنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ لہذا اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور نظام زندگی قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائی کرے گا۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ فریضہ تبلیغ اور رہنمائی امت کے ذمے ہے اور اس ذمہ داری کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو اپنا مقصدِ زندگی بنائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نظامِ زندگی کی پیروی کریں تو اسوۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہو سکیں گے۔اس لیے اللہ تعالی کے فضل پر اور خدائی قوانین کے نتیجے خیز ہونے پر یقین رکھ کر اور پر امید ہو کر ہر باشعور ہوش مند مسلمان کو اصلاحی کوششوں میں مصروف رہنا چاہیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہالت کے اندھیروں میں 40 برس قوم کی اصلاح کا سوچتے ہوئے غارِ حرا میں بسر کیے۔پھر اللہ تعالی نے جب منصب نبوت و رسالت پر فائز کیا تو اللہ تعالی کے حکم کے تحت فرداً فرداً لوگوں کو اسلام کے دائرے میں وحی کی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی کرتے ہوئے داخل کرنا شروع کیا۔حق کے طلبگار اور متلاشی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل گئے اور ہجرت مدینہ تک اللہ تعالی کے پسندیدہ بندوں کی کچھ تعداد تیار ہو گئی اور ہجرت مدینہ کے بعد معرکہ بدر میں اپنے سے زیادہ کفار کی تعداد کو شکست سے دوچار کیا۔اگر انفرادی اصلاح سے مضبوط شخصیتیں تیار ہو جائیں تو ہزاروں کا بھی مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں۔اللہ تعالی ہمیں اس سے بچائے کہ ہم سمندر میں تیرنے والے بے جان تنکوں کی مانند ہو جائیں۔
{آمین}
اسلام کی تاریخ میں اسلامی لشکروں کے مقابلے میں کفار کے لشکروں کی کثیر تعداد شکست کا سامنا کرتی رہی ہے۔آل صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی اصلاح سے اصلاح کا آغاز کیا تھا۔پھر وہ مضبوط جماعتوں کی صورت میں چھا گئے اور یہی غلبہ اسلام کا نقطہ آغاز تھا۔آج بحیثیتِ امتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اسوۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مستقل انفرادی اصلاح کے لیے ڈٹ جانا چاہیے تاکہ امتِ مسلمہ کے اندر بھی بدری مجاہد پیدا ہوں اور پھر بڑھتے بڑھتے سارے عالمِ کُفر کو مغلوب کیا جائے۔
اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *