وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجہ ضعیفوں کا ماوی
یتیموں کا والی غلاموں کا مولا
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور ایک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دِی بس اِک ان میں اُس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رُخ ہوا کا
پڑی کان میں دھات تھی اِک نکمی
نہ کچھ قدر تھی اور قیمت تھی اس کی
طبیعت میں جو اُس کے جوہر تھے اصلی
ہوئے سب تھے مٹی میں مل کر وہ مٹی
یہ تھا ثبت علمِ قضا و قدر میں
کہ بن جائے گی وہ طِلا ایک نظر میں
وہ فخرِ عرب زیبِ محراب و منبر
تمام اہلِ مکہ کو ہمراہ لے کر
گیا ایک دن حسبِ فرمانِ داور
سُوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر
یہ فرمایا سب سے کہ “اے ال غالب
سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کے کازب؟”
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی ضمیر جس نے ساری ہلا دی
نئی اِک لگن دل میں سب کے لگا دی
اِک آواز میں سوتی بستی جگا دی
پڑا ہر طرف غل یہ پیغامِ حق سے
کہ گونج اُٹھے دشت و جبل نامِ حق سے
(الطاف حسین حالی)