انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ اس کے اعمال ہیں۔ اعمال ہی اس کی بلندی اور پستی اس کی ترقی اور تنزل اس کی مقبولیت و نامقبولیت کا دارومدار ہیں۔ اعمال ہی انسان کو بام عروج پر پہنچا دیتے ہیں۔ اور اعمال ہی اس کی ذلت و تباہی کے گڑھے میں لے جاتے ہیں۔ یہی حال اجتماعی زندگی کا ہے اگر کسی قوم کے افراد کی اکثریت حسن عمل کی سرمایہ دار ہوگی۔ تو وہ قوم ترقی و عروج کی بلندیوں کو چھو لےگی اور جس قوم کے افراد حسن عمل سے محروم ہوں گے وہ ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف جائیں گے۔یہ وہ بات ہے جس کو علوم عمرانی کے ماہر بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اور جس کی گواہی میں تاریخ کے اوراق بھی صف باندھے کھڑے ہیں۔
مسلمان کو اللہ تعالی نے ایک بہترین ضابطہ حیات عطا فرمایا ہے جس سے زیادہ جامع اور مکمل کوئی دستور حیات کوئی ضابطہ عمل اور نظام اخلاق آج تک پیش نہیں کیا جا سکا۔اور مسلمان کی حیثیت سے ہمارا یقین اور ہمارا ایمان ہے کہ آئندہ بھی پیش نہیں کیا جا سکے گا۔اسلامی نظام عمل میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق مکمل اور مفصل ہدایت موجود ہے۔اور ایک نمونہ کامل محفوظ ہے۔وہیں زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی معمولی گوشوں کو بھی ہدایات کی روشنی سے منور کر دیا گیا ہے۔یہ چھوٹی چھوٹی باتیں زندگی کو خوشگوار اور کامیاب بنانے کے لیے بڑی کارآمد اور کارگر ہیں۔
ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
“مومن کے میزان میں اچھے اخلاق سے زیادہ کوئی چیز وزنی نہ ہوگی”
(مسلم و ترمذی)
اخلاق کا تعلق پوری زندگی اور اس کی سرگرمیوں سے ہے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ
“ہر چیز میں اللہ تعالی نے احسان فرض کیا ہے،قتل بھی کرو تو حسن کے ساتھ ذبح بھی کرو تو حسن کے ساتھ”
(ابن ماجہ)
یعنی اللہ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ آدمی جب کوئی کام کرے تو وہ بھی خوش اسلوبی سے کرے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزر ہوا جو بکری کو گرا کر اس کے چہرے پر پاؤں رکھ کر چھری تیز کر رہا تھا۔ اور بکری اس کی عمل کو دیکھ رہی تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ:
“یہ بکری ذبح کرنے سے پہلے نہ مر جائے گی؟کیا تم اس کو دوہری موت دینا چاہتے ہو؟”
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسن سلوک کی اہمیت زندگی میں کس قدر ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طرز زندگی اپنی امت کو سکھائی ہے اس میں اچھے برتاؤ اور خوش اخلاقی کو کتنا اہم مقام حاصل ہے۔
حسن سلوک ایسی چیز ہے جس کا اظہار ہر وقت ہر موقع ہر شخص سے ہو سکتا ہے۔روزانہ صبح سے شام تک سینکڑوں آدمیوں سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے کسی سے سرسری ملاقات ہوتی ہے۔اور کسی سے تفصیلی گفتگو اور تبادلہ خیال ہوتا ہے۔کسی سے صرف دعا سلام ہی تک بات پہنچتی ہے،لیکن اس سب میں آپ کا برتاؤ اور حسن عمل ظاہر ہوتا ہے۔اچھا برتاؤ ہوگا تو وہ بھی نمایاں ہوگااور اپنے اثرات چھوڑے گا۔برا سلوک ہوگا تو اس کا بھی اظہار ہو کر رہے گا اس کے نتائج بھی نمایاں ہوں گےاور اپنے اثرات چھوڑے گا اور اس کے نتائج بھی نمایاں ہوں گے۔
چلتے چلتے محض سلام کرنے اور مزاج پوچھنے کے انداز ہی سے مخاطب کے ساتھ آپ کے رویے اور سلوک کا اندازہ ہو جائے گا،مسکراتا ہوا چہرہ حسن اخلاق کا بہترین مظہر ہے،کسی کو دیکھ کر چہرے پر بشاشت کا آجانا اس پر آپ کی توجہ اور اس سے آپ کے تعلق کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔اور یہ بھی حسن سلوک ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ ان کے ملنے سے آپ کو خوشی ہوئی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
“اپنے بھائی کے لیئے مسکرا دینا صدقہ ہے۔”
بتائیے انسانیت کا اس سے زیادہ پاس کس کو ہوگا اور انسانی نفسیات کا لحاظ اس سے زیادہ کس مصلح،کس رہنما کو ہوگا۔باہم اخوت و محبت زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اور اکثر اچھے نتائج پیدا کرتی ہے۔تعلقات بنانے اور بگاڑنے،رشتوں کو توڑنے اور جوڑنے میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا بڑا دخل ہوتا ہے۔بلکہ اکثر اہم باتوں کے مقابلے میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہی انسانی تعلقات پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ حسن سلوک انسان کو وہ طاقت اور کشش عطا کرتا ہے۔ جس سے وہ دلوں کو مسخر کر لیتا ہےاور انسان کی سچی خدمت انجام دیتا ہے۔ایک میٹھا بول بعض اوقات مایوس و دل شکستہ انسان کو ولولہ تازہ عطا کرتا ہے۔ہمت افزائی کا ایک جملہ حوصلوں کو بلند اور عزائم کو جوان بنا دیتا ہے یہ سب حسن سلوک کے کرشمے ہیں۔بڑے سے بڑا آدمی اگر اس نعمت سے محروم ہے تو سمجھیے کہ وہ انسانیت کے حقیقی زور سے محروم ہے اور سچی خوشی اس کے پاس کبھی نہیں پھٹکے گی۔
ابن ماجہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
“اللہ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ اس بات کو لوگوں میں عام کر دو کہ تم سب تواضع انکساری اختیار کرو۔”
جب بھی دن کا آغاز ہوتا ہے اور رات کے پردے سے دنیا جنم لیتا ہے تو دن پکارتا ہے۔
“اے فرزند آدم!میں نئی مخلوق ہوں تمہارے اعمال کا گواہ ہوں، مجھے غنیمت سمجھو میں قیامت کے دن تک پلٹ کر نہیں آؤں گا۔”
اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہر عمل سوچ سمجھ کر کریںکیونکہ ہر عمل کے اندر اس کا انجام یوں چھپا ہوتا ہے۔ جیسے بیچ کے اندر درخت۔ دیکھیے ہم اس دنیا میں کتنے مختصر وقت کے لیے آئے تھے ہم اس دنیا میں اس طرح آئے کہ آتے ہوئے آذان ہوئی اور جاتے ہوئے نماز۔
“اے فرذند آدم کر جلدی نیکی کے کام کیوں سوچتا ہے وقت کی فرمان کو”
ہائے افسوس کہ ہم میں سے کسی کو احساس نہیں کہ گنی چنی چیز زندگی کی زنجیروں میں سے ایک کڑی کم ہو گئی ہے۔کاش ہمیں اس بات کا شعور ہوتا ہے کہ ہم زندگی کے کیسے راستے میں قدم رکھ رہے ہیں۔جس راستے کے انجام سے ہر شخص ناواقف ہے۔کوئی جانتا نہیں کہ اس نے زندگی کی شاہراہ پر کس مقام پر رک جانا ہے؟کسی کو یہ خبر نہیں کہ ہم کتنے قدم چل سکتے ہیں اور کتنے قدم مزید چلنا ہے؟
بزرگوں کی نصیحت ہے کہ خواہ دوست ہو یا دشمن سب کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرو۔ شیریں زبان بنو کہ شیریں زبانی خود ایک جادو ہے۔ تم جو اچھی ہے بری بات کہو گے اسی کے ساتھ جواب کی امید رکھو، جو بات تم نہیں چاہتے کہ تم دوسروں سے سنو،تم بھی دوسروں سے ایسی بات نہ کہو۔جو بات تم لوگوں کے سامنے نہیں کر سکتے،ان کی عدم موجودگی میں بھی نا کہو اور بغیر کسی وجہ سے لوگوں کی قیمت دو اور جو کام تم نے نہیں کیا اس پر شیخی مت بھگارو اور تمہارا کردار،تمہاری گفتار سے زیادہ ہونا چاہیے۔

افسوس کے بیتے ہوئے تمام لمحے گزرے ہوئے تمام اوقات ماضی کے وسیع و عریض قلزم ناپید کنارے میں غائب ہوتے گئے۔ماضی کے سمندروں لہروں میں ہمارے بیتے ہوئے اوقات یوں گل مل گئے۔جیسے برف پگھلتی ہے جیسے شبنم کی قطرے اڑتے ہیں۔ جیسے سورج کی کرنیں برف کو پانی بنا کر سمندروں تک پہنچا دیتی ہیں،اور وہ برف اس طرح فنا ہو جایا کرتی ہے کہ اس کے بعد کبھی واپس پلٹا نہیں کرتی،بالکل اسی طرح انسانوں کی زندگی کے منٹ،گھنٹے،پہر،دن،رات،مہینے،سال اور صدیاں ماضی کے سمندر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جاتے ہیں۔
دانا کہتے ہیں کہ دشمن سے صلح کرنے کا گر یہ ہے کہ اس کی تعریف و توصیف کرو،اگر اس کی تلخ بات سننا ناگوار نہیں تو کچھ گوار باتوں سے اس کے منہ کو میٹھا کرو۔

ناصر خسرو کہتے ہیں
“ناپسندیدہ شخص سے دوستی مت کرو،سلیم الطبع اور وفادار شخص سے دوستی کرو،کسی کا دل دکھانا اور اسے ناراض کرنا آسان ہے۔اسے منانا اور اس سے اپنا بنانا مشکل ہے۔لوگوں سے موافقت کرنا اور بردباری سے پیش آنا کامیابی کی کلید ہے۔”
اے فرزند آدم! آپ کا ایک لفظ دوسروں کو زخم بھی لگا سکتا ہے اور مرہم بھی بن سکتا ہے۔اختیار آپ کے پاس ہے کہ آپ کیا کرتے ہیں دوسروں کے لیے زخم بنتے ہیں یا مرہم بھی بنتے ہیں۔اگر آپ مرہم بنتے ہیں تو آپ کا ایک لفظ اللہ کے دربار میں 70 گنا نیکیاں بڑھا کر آپ کے اعمال میں شامل ہو جائے گا۔ اگر ہم دوسروں کے زخم بنتے ہیں تو اس ایک لفظ کی طرف یا گناہ کر کے چھوٹے ہونے کی طرف نہ دیکھو۔ بلکہ یہ دیکھو کہ تم نافرمانی کس کی کر رہے ہو اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ایک لفظ ہمارے نامہ اعمال میں کئی گنا نیکیوں میں درجات بڑھا رہا ہےیا پھر ایک لفظ ہمارے نامہ اعمال میں کئی گناہ برائیوں کو بڑھا رہا ہے۔
“اچھا انسان وہ ہے جو کسی کا دیا ہوا دکھ تو بھلا دیں مگر کسی کی دی محبت کبھی نہ بھلائے۔”
اب یہ ہم سب مسلمانوں کا اولین فرض ہے علامہ اقبال کے اس فلسفے کو سمجھیں یا تاریخ کے دوراہے پر لمبی تان کر سو جائیں۔
“اٹھ کے اب بزم میں جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے”