تحریر/سمیرا صدیق

شہیدوں کی اذاں ہوں
مجاہد کی ہوں شمشیر
میں دھرتی ہوں شہیدوں کی
مجھے کہتے ہیں کشمیر
اس نے آئینے میں خود کو دیکھا خوب صورت ناک نقشہ،گورا چٹا رنگ،بڑی بڑی دلکش آنکھیں اور درمیانہ قد کاٹھ اس پر خوب جچتا تھا۔۔۔وہ اپنے سراپے پر سے نگاہیں ہٹائے کمرے سے باہر کھلتی کھڑکی کے سامنے رکھی کرسی پردھیمے انداز میں بیٹھ گئی۔۔۔اب کھڑکی کے سامنے کا منظر اس کی نگاہوں میں اتر رہا تھا۔۔۔
سر سبز و شاداب میدان کے بیچوں بیچ سامنے کے بلند و بالا پہاڑوں سے گرتا دل نشین جھرنا۔۔اور اس جھرنے کے اطراف میں پھیلا خوفناک سناٹا۔۔۔یہ خوفناک سناٹا کسی دیو کے ظلم کا منظر پیش کررہا تھا۔۔۔جس نے ان رعنائیوں کی پریوں کو اپنی مضبوط گرفت میں دبوچ رکھا تھا۔۔۔وہ تڑپ اٹھتی تھی یہ سب دیکھ کر۔۔۔ اس کی جان ان رعنائیوں میں بستی تھی۔۔۔کیونکہ وہ انہی رعنائیوں کے دیس کی بہادر شہزادی تھی۔۔۔کشمیری شہزادی۔۔۔وہ اپنے اسی نام سے جانی جاتی تھی۔۔۔مقبوضہ کشمیر کی ایک حسین بستی میں آنکھ کھولنے والی یہ شہزادی ہندو سامراج کے جبر و استبداد میں پروان چڑھی۔۔۔اس کے بابا اپنے آبا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی جان اپنے پیارے کشمیر پر قربان کر چکے تھے۔۔۔ تب وہ بہت چھوٹی تھی۔۔۔جب بڑی ہوئی تو اماں نے اسے بستی کے ایک اسکول میں داخل کرادیا۔۔۔ لیکن گاہے بگاہے ہندو فوجی اسکول میں آتے اور معصوم بچوں،بچیوں اور اساتذہ کو ڈرا دھمکا کر لوٹ جاتے۔۔۔قابض ہندو فوج مسلمان کشمیری بچوں میں خوف و ہراس کو پختہ کرنے اور ان کے حق ازادی کے نعرے کو کچلنے کی ناکام کوشش لیے پلٹ جاتی۔۔۔کیونکہ کشمیر کے بچے بچے کے من میں کشمیر کی آزادی کی خواہش ارادہ بن کر انگڑائیاں لیتی۔۔۔یہی وجہ تھی کہ آزادی کی خواہش اس کشمیری شہزادی کا بھی ارادہ بن چکی تھی۔۔۔ہندو بنیے کے ظلم و ستم اور کشمیر پر ان کے غاصبانہ تسلط کے درمیان جب وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی۔۔۔تو اس کے بھیا نے اسے اسکول سے اٹھا دیا۔۔۔کیونکہ بے غیرت ہندو فوجی سکولوں میں جا کر نوجوان مسلمان لڑکوں کو پہلے بری طرح مارتے پیٹتے اگر وہ مزاحمت کرتے تو انہیں شہید کردیا کرتے۔۔۔جبکہ نوجوان لڑکیوں کی ردائیں نوچ کر ان کی عصمت دری کرتے۔۔۔
بھیا اپنے بابا کی طرح ہندوؤں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک کے سرگرم رکن تھے۔۔۔اسی لیے کئی بار وہ جیل بھی جا چکے تھے۔۔۔بد تہذیب ہندو ان کے گھر میں زبردستی گھس کر بھیا کو پکڑ کر لے جاتے۔۔۔کچھ مہینوں بعد تحریک کے دیگر اراکین کی کاوشوں سے وہ پھر جیل سے رہا ہو جاتے۔۔۔اماں کو شہزادی کی عزت کی فکر ہر لمحہ دامن گیر رہتی یہ صرف اماں کی فکر نہیں تھی۔۔بلکہ صدیوں سے کشمیر کی ہر ماں اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کی فکر میں جی رہی ہے۔۔۔تو باپ اور بھائی اس عزت کو بچانے کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔۔غم اور کرب کے اس دور میں شہزادی کی شادی اس کے چچا زاد سے کر دی گئی۔۔۔ شہزادی کی خوبصورت آنکھوں میں اس کا بہادر کشمیری سرتاج ہی نہیں بلکہ کشمیر کی آزادی کا حسین خواب بھی جگمگاتا تھا۔۔۔
اپنے حسین خواب کی تکمیل کے لیے وہ مدتوں کے انتظار پر محیط سفر پر آبلہ پا چلتی رہی۔۔۔اسی دوران وہ ایک بیٹے اور بیٹی کی ماں بن چکی تھی۔۔۔تب ہی ظالم ہندو بنیے نے اپنی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے کی جرم میں شہدائے اذاں کی مانند اس کے پیارے شوہر کو گولی مار کر شہید کر دیا۔۔۔ لیکن بلند حوصلوں والی کشمیری شہزادی نے اپنے بابا، بھیا اور شوہر کی طرح حق آزادی کی آواز کو مدہم نہیں پڑنے دیا۔۔۔شہادتیں تو ان کی روایت بن چکی تھیں۔۔۔
وہ کیوں ڈگمگاتی۔۔۔۔؟وہ ان آوازوں کو بلند کرنے سے کیوں ہچکچاتی۔۔۔؟
اب وہ بھی کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی رکن بن چکی تھی۔۔۔اپنی جان ہتھیلی پر لیے وہ کشمیر کی بہادر خواتین کی صف میں کھڑی ہو چکی تھی۔۔۔لیکن کشمیری ماؤں کی طرح ہندو بنیے کے ہاتھوں اپنے بیٹے کی مار پیٹ اپنی بیٹی کی عزت و ناموس کی حفاظت کی فکر اسے بھی لاحق رہتی۔۔۔
وہ اپنی وادی کشمیر کے حسن کو غور سے دیکھتی۔۔پھر اس حسن پر لگے غاصبانہ قبضے کے گرہن کو دیکھ کر اک سرد آہ بھرتی۔۔۔یہ سوچ کر کہ۔۔۔
ہم کیوں آزاد نہیں۔۔۔؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *