تحریر:ساجدہ اسلم
ایک روز رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ ایک حجرہ میں تشریف فرما تھے۔ کسی بات پر امہات مومنین زور زور سے گفتگو کر رہی تھیں اور ہنس رہی تھیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی محفل میں شریک تھے کہ اسی اثناء میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام ازواج کی ایک دم بدلی ہوئی حالت دیکھ کر ہنس پڑے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مسکرانے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:”عمر (رضی اللہ تعالی عنہ) یہ تم سے بہت ڈرتی ہیں، ابھی تمہاری آمد سے پہلے یہ خوب ہنس کھیل رہی تھیں،اور اب دیکھو جیسے ان میں سے کسی کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے۔”
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے سن کر فرمایا:” بے وقوف مجھ سے ڈرتی ہو اور اللہ اور اس کے رسول سے نہیں ڈرتی جن سے میں تو کیا تمام مسلمان ڈرتے ہیں۔”
(بخاری)
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات پر بہت ناراض ہو گئیں غصے میں آکر ذرا اونچی آواز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنے لگیں کہ اسی اثناء میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ملاقات کے لیے تشریف لے آئے جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیٹی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں مخاطب ہوتے دیکھا تو غصہ سے بے تاب ہو گئے یہ فرماتے ہوئے تھپڑ مارنے کے لیے آگے بڑھے کہ:” تم اللہ کے رسول سے اس لہجے میں بات کرتی ہو۔” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یار غار کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو جلدی سے اٹھ کے درمیان میں آگئے اور عائشہ کو بچا لیا۔ سیدنا صدیق رضی اللہ تعالی عنہ طیش میں بھرے ہوئے واپس لوٹ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر چھیڑنے کی غرض سے فرمایا “کیوں عائشہ بچا لیا نہ ورنہ دماغ ٹھکانے آجاتا۔”تو سیدہ صدیقہ بھی زیر لب مسکرا کر شرمندہ سی ہو گئیں۔(ابو داؤد)