تحریر:ساجدہ اسلم

ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا فاطمہ زہرہ کے ہاں تشریف لے گئے دیکھا کہ سیدہ النساء اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اس میں 13 پیوند لگے ہیں۔ آٹا گوند رہی ہیں اور زبان پر کلام کا ورد جاری ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔
اور فرمایا۔
“فاطمہ!!! دنیا کی تکالیف کا صبر سے خاتمہ کر اور آخرت کی دائمی مسرت کا انتظار کر، اللہ تمہیں نیک اجر دے گا۔”
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا لاؤ۔
جس وقت میں ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ سیدہ النساء رضی اللہ تعالی عنھا سید حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں۔ فی الحقیقت سیدہ کا اکثر یہ حال ہوتا تھا کہ دو وقت فاقے ہوتے تھے اور بچوں کو گود میں لے کر چکی پیسا کرتی تھیں۔
ایک دفعہ سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنھا مسجد نبوی میں تشریف لائیں اور روٹی کا ایک ٹکڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ: “کہاں سے آیا ہے؟۔”
سیدہ نے جواب دیا: “ابا جان تھوڑے سے جو پیس کر روٹی پکائی تھی جب بچوں کو کھلا رہی تھی تو خیال آیا کہ آپ کو بھی تھوڑی سی کھلا دوں ابا جان یہ روٹی تیسرے دن نصیب ہوئی ہے۔”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: “اے میری بچی چار وقت کے بعد یہ پہلا ٹکڑا ہے جو تیرے باپ کے منہ میں پہنچا ہے۔”
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ بہت صبر والی اور تقوی والی پرہیزگار خاتون تھیں۔
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ زہراء کے گھر تشریف لے گئے،دیکھا کہ دروازے پر ایک رنگین پردہ لٹکا ہوا ہے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کے ہاتھ میں چاندی کے دو کنگن ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر واپس لوٹ گئے۔سیدہ فاطمہ بہت دلگیر ہوئیں اور رونے لگیں۔اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ تعالی عنہ پہنچے گئے۔رونے کا سبب پوچھا سیدہ رضی اللہ تعالی عنھا نے سارا ماجرہ سنایا۔تو ابو رافع بولے:”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کنگن اور پردے کو ناپسند فرمایا ہے۔”
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا نے دونوں چیزیں فورا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیں اور کہلا بھیجا کہ میں نے انہیں اللہ کی راہ میں دے دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اپنی بچی کے حق میں دعائے خیر و برکت مانگی اور ان اشیاء کو بیچ کر قیمت فروخت کر کے اصحاب صفہ کے اخراجات میں صرف کر دی۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا نے اپنے شوہر سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی تھی،نہ کبھی اچھا کھانا مانگا اور نہ پہننے کے لیے اچھا کپڑا مانگا۔
ایک دفعہ سید علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ گھر تشریف لائے اور کھانے کو کچھ مانگا سیدہ نے بتایا کہ تیسرے دن سے گھر میں جو کا ایک دانہ تک نہیں۔جناب مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:”اے فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا) مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا۔”
سیدہ النساء رضی اللہ تعالی عنھا نے جواب دیا:”اے میرے سر تاج(رضی اللہ تعالی عنہ) میرے باپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔”
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالی عنھا سے بے حد محبت فرماتے تھے۔
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک دفعہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے غوراء بنت ابی جہل سے نکاح کا ارادہ کیا۔سید النساء نے عرض کی:”یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) علی (رضی اللہ تعالی عنہ) مجھ پر سوتن لانا چاہتے ہیں۔”
آپ کے دل پر سخت چوٹ لگی ادھر غوراء کے سرپرست بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کی اجازت لینے آئے سرور کائنات ممبر پر تشریف لائے اور ممبر پر چڑھ کر فرمایا: “آل ہشام علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے اپنی لڑکی کا عقد کرنے کے لیے مجھ سے اجازت چاہتے ہیں لیکن میں اجازت نہ دوں گا البتہ علی (رضی اللہ تعالی عنہ) میری لڑکی کو طلاق دے کر دوسری لڑکی سے شادی کر سکتے ہیں۔ فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنھا)میرے جسم کا ٹکڑا ہے۔جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھے بھی اذیت دی جس نے اس کو دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرنا چاہتا۔لیکن اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کی بیٹی اور دشمن کی بیٹی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔”
اس کا اثر یہ ہوا کہ سید علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارادہ نکاح فورا ترک کر دیا اور سیدہ فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنھا) کی زندگی تک پھر دوسرے نکاح کا خیال تک نہ لائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے اپنی بیٹی سے محبت تھی ویسے ہی اپنے داماد اور نواسوں سے بھی بے حد پیار تھا۔ان سے فرمایا کرتے تھے:” جن لوگوں سے تم ناراض ہو گئے میں بھی ان سے ناخوش ہوں گا جس سے تمہاری لڑائی ہے ان سے میری بھی لڑائی ہے جس سے تمہاری صلح ہے ان سے میری بھی صلح ہے۔”
سید علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کرتے:”اے علی! (رضی اللہ تعالی عنہ)تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔”
فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنھا کے فرزند سیدنا حسن رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے دل کا ٹکڑا سمجھتے تھے۔نہایت محبت سے انہیں بوسے دیتے اور اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ دن پہلے سیدہ فاطمہ زہراء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر گیری کے لیے سیدہ عائشہ صدیقہ کے حجرے میں تشریف لائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا اور ان کے کان میں آہستہ سے کوئی بات کہی جس کو سن کر وہ رونے لگیں،لیکن پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اور بات کہی جسے سن کر وہ ہنسنے لگیں۔تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے ان سے پوچھا : “اے فاطمہ تیرے رونے اور ہنسنے میں کیا بھید تھا” سیدہ نے فرمایا:”جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخفاء رکھی ہے میں اس کو ظاہر نہ کروں گی۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک دن سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا(اور بعض روایتوں کے مطابق سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنھا)نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اس دن کے واقعہ کی تفصیل پوچھی سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: “پہلی دفعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا تھا کہ جبرائیل امین سال میں ہمیشہ ایک بار قران کا دور کیا کرتے تھے۔ اس سال خلاف معمول دو بار کیا ہے۔ اس سے قیاس ہوتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آگیا ہے۔”
اس پر میں رونے لگی اور دوسری طرف فرمایا:”تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو گی۔” اس سے مجھے خوشی ہوئی اور میں ہنسنے لگی۔
وفات سے قبل جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بار بار غشی طاری ہوتی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا فرمایا۔
“ہائے میرے باپ کی بے چینی”
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
“تمہارا باپ آج کے بعد بے چین نہ ہوگا۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا سب سے زیادہ صدمہ فاطمہ زہراء کو ہوا اور ہر وقت غمگین و دل گرفتا رہنے لگیں۔ ان کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد 3 رمضان المبارک 11 ہجری کو 29 سال کی عمر میں عازم فردوس بریں ہوئیں۔
سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنھا کی چھ اولادیں ہوئیں۔سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ، سیدنا حسین، سید محسن، سیدہ کلثوم،سیدہ رقیہ،سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنہا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *