تحریر:اسماء تاثیر
سیدہ زینب ؓ جس وقت پیدا ہوئیں تو اس وقت نبی ﷺ کی عمر مبارک 30 سال تھی۔ان کا نکاح مکہ ہی میں حضرت ابو العاص بن ربیع ؓ سے ہوا تھا۔ حضرت ابو العاص ؓ کی والدہ حضرت ہالہ ؓ بنت خویلد حضرت خدیجہ ؓ کی سگی بہن تھیں۔ یہ نکاح حضرت خدیجہ الکبری ؓ کے سامنے ہوا تھا حضرت زینب ؓ اپنی والدہ کے ساتھ ہی داخلے اسلام ہو گئی تھیں مگر ابو العاص ؓ کا اسلام تاخیر میں رہا۔ جنگ بدر میں حضرت ابو العاص ؓ قریش کی جانب تھے۔ان کو عبداللہ ؓ بن جبیر بن نعمان انصاری نے اسیر کیا تھا۔ سیدہ زینب ؓ نے ان کی رہائی کے لیے فدیے میں اپنا وہ ہار بھیجا جو حضرت خدیجۃ الکبری ؓ نے بیٹی کو جہیز میں دیا تھا۔
ابتدائے ایام اسلام میں کفار مکہ نے حضرت ابو العاص ؓ بن ربیع کو بہت اکسایا کہ وہ حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دیں مگر آپ ؓ نے ہمیشہ انکار ہی کیا۔ایک موقع پر نبی ﷺ نے حضرت ابو العاص ؓ بن ربیع کے اس فعل کی توصیف شکر گزاری کے ساتھ فرمائی تھی۔ حضرت ابو العاص ؓ نے بدر سے رہائی پاتے وقت نبی ﷺ سے وعدہ کیا کہ حضرت زینب ؓ کو ہجرت کی اجازت دے دوں گا۔ چناچہ سیدہ زینب ؓ ہجرت کر کے اپنے والد مکرم حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئیں۔
سفر ہجرت میں سیدہ زینب ؓ کی مزاحمت احبار بن اسود نے نیزد تان کر کی تھی۔ اس صدمے سے سیدہ کا حمل ساقط ہو گیا تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔(احبار ؓ بن الاسود فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو گیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے ان کا جرم معاف کر دیا تھا)
نبی ﷺ نے سیدہ زینب ؓ کی منقبت میں فرمایا ہے۔
“یہ میری بیٹیوں میں افضل ہے میرے لیے اسے مصیبت پہنچی”۔ حضرت ابو العاص ؓ کو سیدہ زینب ؓ سے بہت محبت تھی۔ ابو العاص ؓ 6 ہجری میں تجارت کے لیے شام گئے تھے اس وقت قبیلہ قریش مسلمانوں کا فریق جنگ تھا۔اس لیے حضرت ابو بصیر ؓ اور حضرت ابو جندل کے ہمراہی مسلمانوں نے جو اسلام لانے کے جرم میں قریش کی قید میں رہ چکے تھے۔ اب سرحد شام پر ایک پہاڑ پر پناہ گزیں تھے انہوں نے اس قافلے کا تمام سامان ضبط کر لیا مگر ابو العاص ؓ کو گرفتار نہ کیا۔حضرت ابو العاص ؓ وہاں سے سیدھے مدینہ طیبہ پہنچے۔ نماز صبح کے وقت سیدہ زینب ؓ کی آواز مسلمانوں نے کانوں میں پڑی۔
“میں ابو العاص ؓ بن ربیع کو پناہ دیتی ہوں۔”
یہ آواز اس وقت سنی گئی جب مسلمان نماز میں داخل ہو چکے تھے۔نماز سے فارغ ہوئے تو نبی ﷺ نے فرمایا۔
“لوگو تم نے بھی کچھ سنا ہے جو میں نے سنا ہے۔” سب نے عرض کیا۔جی ہاں۔ نبی ﷺ نے فرمایا۔
“بخدا مجھے اس سے پہلے کچھ علم نہ تھا میں نے یہ آواز تمہارے ساتھ ہی سنی ہے اور پناہ دینے کا حق تو ہر ادنی مسلمان کو بھی ہے۔
یہ ارشاد فرما کر نبی ﷺ گھر بیٹی کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا:”بیٹی ابوالعاص ؓ کو عزت سے ٹھہراؤ اور خود اس سے الگ رہنا تو اس کے لیے حلال نہیں ہے۔”
سیدہ زینب ؓ نے عرض کیا کہ وہ تو مال قافلہ واپس لینے آئے ہیں۔
تب نبی ﷺ نے لوگوں میں یہ تقریر فرمائی:” اس شخص کا جو تعلق ہم سے ہے وہ تم جانتے ہی ہو، تم کو اس کا جو مال ہاتھ لگ گیا ہو تو یہ داد الہی ہے مگر میں پسند کرتا ہوں کہ تم اس پر احسان کرو اور مال واپس کر دو، لیکن اگر تم اس سے انکار کرو گے تو میں سمجھتا ہوں کہ تم زیادہ حقدار ہو۔”
لوگوں نے سارا مال حتٰی کہ اونٹ کی نکیل کی رسی بھی واپس کر دی۔حضرت ابو العاص ؓ سارا سامان لے کر واپس مکہ پہنچے اور ہر ایک شخص کی ذرہ ذرہ چیز ادا کر دی۔ پھر دریافت کیا کہ اگر کسی شخص کا کچھ میرے ذمے حساب ہو تو بتا دے۔ سب نے کہا، اللہ تجھے جزائے خیر دے تم تو وفی و کریم نکلے۔ تب حضرت ابو العاص ؓ نے کلمہ شہادت پڑھا اور فرمایا اب تک مجھے یہی مال اسلام سے روکتا رہا کہ کوئی شخص مجھے مال لینے کا الزام نہ دے۔ اب میری ذمہ داری نہ رہی۔ خلعت اسلام سے ملبوس و مزین ہوتا ہوں اور مدینہ جا رہا ہوں۔ حضرت ابو العاص مدینہ پہنچے تو نبی نے چھ سال کی مفارقت کے بعد نکاح اول پر ہی سیدہ زینب ؓ کو حضرت ابو العاص ؓ کے گھر رخصت کر دیا ۔اس رخصتی کے بعد سیدہ زینب ؓ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہیں۔8 ہجری میں اپنے مالک کی حقیقی سے جا ملیں۔
حضرت ام ایمن ،حضرت سودہ اور حضرت ام سلمہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کے مطابق غسل دیا۔ یہ بزرگ مائیں غسل دے چکیں تو رحمت عالم کو اطلاع دی آپ ﷺ نے اپنا تہبند اپنے جگر گوشہ کے لیے عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا:اس کو کفن کے اندر سے پہنا دو۔ صحیح بخاری میں حضرت ام عطیہ سے روایت ہے کہ میں بھی اس غسل دینے میں شریک تھی اور رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا تھا:” اے ام عطیہ !میری بیٹی کو اچھی طرح کفن پہنانا۔”
غسل اور کفن سے فراغت کے بعد جب نماز جنازہ کے لیے میت لائی گئی تو رسول اللہ ﷺ نے خود نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت ابو العاص ؓ نے حضرت زینب ؓ کو قبر میں اتارا۔
ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ خود بھی قبر میں اترے تدفین کے وقت رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑیاں لگ گئیں اور زبان اقدس سے یہ ارشاد فرمایا کہ
“زینب،میری زینب! میری سب سے اچھی بیٹی تھی جو میری محبت میں بہت ستائی گئی۔”