تحریر:رملہ تاثیر
نیک اولاد والدین کے لیے دنیا میں باعث امن و سکون اور مرنے کے بعد ان کی دعا باعثِ اجر و ثواب ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
{بچیوں کی آمد پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی دل میں رنجیدہ ہونا چاہیے اس صورت میں انسان اپنے رب کا ناشکرا اور تقدیر الٰہی کا باغی محسوس ہوتا ہے کیونکہ بیٹے اور بیٹیاں عنایت کرنے والی ایک ہی ذات ہے-}
اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
{زمین و آسمان کی بادشاہی صرف اللہ کے لیے ہے جو چاہے پیدا کرے جسے چاہے بچیاں عنایت کرے اور جسے چاہے بچے عنایت فرما دے یا انہیں ملے جلے عطا کرے اور جسے چاہے بانجھ بنا دے بلا شبہ وہ ہر چیز کو اچھی طرح جانتا ہے اور قدرت رکھتا ہے-}
(سورۃ الشوری آیت نمبر 52)
بچیوں کی آمد پر ناک منہ چڑھانا تو درحقیقت مشرکانہ اخلاق اور ذہنیت کا مظاہرہ ہے قرآن کریم اس صورۃحال کا نقشہ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
{اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رکھے یا مٹی میں دبا دے۔
دیکھو کیسے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں-} (سورۃ النحل آیت نمبر: 58،59)
اسلام نے بچیوں کی پرورش کو باعث اجر و ثواب قرار دے کر حوصلہ افزائی کی ہے پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ مومن بچیوں کی آمد پر رنجیدہ دل ہو
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
{جس کسی نے نوجوان ہونے تک دو بچیوں کی پرورش کی میں محمد ﷺ اور وہ قیامت کے دن ان دو انگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے ۔آپ ﷺ نے اپنی دو انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیا۔
مزید ارشاد فرمایا
{جس آدمی کو بچیاں عنایت ہو گئی پھر اس نے ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا تو یہ بچیاں آگ اور اس آدمی کے درمیان رکاوٹ بن جائیں گیں۔}
صحیح مسلم
اچھے برتاؤ کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ نرینہ اولاد اور بچیوں کی ضروریات پورا کرنے میں کوئی امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے ۔کھانا،پینا،پہننا،رہنا سہنا سب یکساں اور برابر ہو اسی ضمن میں تعلیم دینا تربیت اخلاق کا خیال رکھنا اور مناسب ہنر سکھانا بھی شامل ہے۔
آپ ﷺ کے مندرجہ ذیل فرمان کا بھی یہی مقصد ہے۔
{جس کی لڑکی ہو پھر وہ اسے نہ زندہ درگور کرے نہ اس کی توہین کرے اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دے اللہ تعالی اسے جنت میں داخل فرما دیں گے۔}
سنن ابی داؤد
بچیاں خواہ زیادہ ہوں یا دو تین اجر بہت عظیم ہے کیونکہ اصل مسئلہ جذبہ صادق ہے نہ کہ کثرت و قلت
آپ ﷺ نے فرمایا۔
{جس آدمی کی تین بچیاں ہوں اور وہ ان کا بہت خیال رکھے اپنی کمائی سے انہیں کھلائے پلائے اور لباس مہیا کرے تو وہ بچیاں آگ سے اس کے لیے تحفظ کا سامان بن جائیں گی۔}
اکثر و بیشتر انبیاء بچیوں ہی کے باپ تھے اس لیے
امام اہل سنت احمد بن حنبل کے ہاں جب بچی پیدا ہوتی تو فرماتے۔
{انبیاء بچیوں ہی کے باپ تھے
اگر صرف لڑکے ہی پیدا ہوتے رہیں تو معاشرتی نظام بری طرح متاثر ہو جائے گا کیونکہ نسل انسانی کی بقا تحفظ مرد و عورت کے وجود اور قانونی طریقے سے ملاپ میں مضمر ہے لہٰذا جس مقدار میں لڑکوں کی ضرورت ہے اسی مقدار میں لڑکیوں کی بھی ضرورت ہے ۔امور خانہ داری تربیت اولاد اور دیگر متعدد امور صرف عورت ہی بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہے لہٰذا بچیوں سے نفرت جہاں اللہ تعالی کی رضا اور تقدیر سے بغاوت کا نام ہے وہاں معاشرے کو بھی تباہ کرنے کا موجب ہے۔}
جن لوگوں کو اللہ اپنے فضل سے لڑکے عطا فرما دے انہیں اترانہ یا تکبر کرنا نہیں چاہیے۔ بلکہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل باتیں یاد رکھنی چاہیے۔
لڑکوں یا لڑکیوں کی آمد انسان کی اپنی پسند یا محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ خالص اللہ کی عطا ہے۔
فرمان ربانی ہے۔
{يَهبُوا لِمَن يَشَّاءُ اِنَاسَاً وَيَهبُوا لِمَن يَشَاءُ الذَكُورَا}
{اللہ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔}
سورۃ الشوری آیت نمبر:50
جو اجر و ثواب بچیوں کی پرورش اور ان کے ساتھ حسن سلوک میں ہے لڑکوں کی پرورش میں نہیں کیونکہ لڑکوں کی پرورش انسان مستقبل کی امید اور بڑھاپے کا سہارا سمجھ کر کرتا ہے۔لہذا لڑکیوں کی پرورش خالص اللہ کی رضا جنت کا ذریعہ سمجھ کر کرنی چاہیے۔
انسان جس طرح چاہے سوچتا اور منصوبہ بناتا رہےلیکن امر واقعہ یہ ہے کہ لڑکیاں والدین کی زیادہ وفادار اور خدمت گزار ہوتی ہیں جبکہ اکثرلڑکے اِلَا مَاشَاَاللّہ جب تک والدین کے زیر کفالت ہوں تو فرمانبردار رہتے ہیں اور جب خود کفیل ہو جائیں تو خود سر اور نافرمان ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا حقائق کو سمجھ لینے کے بعد لڑکیوں سے نفرت اور لڑکوں سے پیار کرنا چہ مانی درد۔
اللہ ہمیں قرآن و حدیث پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین