عظمیٰ ناصرہاشمی
اوائل نبوت کا زمانہ ہے۔میرے آقاﷺ رسالت پر فائز کیے جا چکے ہیں۔خفیہ تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری ہے، آغاز وحی کے ساتھ ہی کفر و شرک اور حق و باطل کی کشمکش شروع ہوگئی۔
کفّار قریش نے مکہ کے ان تمام قبائل کو تکالیف دینا شروع کر دیں جو آپ ﷺپر ایمان لا رہے تھے۔ پہلے پہل اسلام کا اظہار کرنے والوں میں پہلے سات افراد ابوبکر ،عمار ان کی والدہ سمیہ، صہیب ، بلال اور مقداد تھے
حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہا کا یہ حال تھا کہ ان کے مالک نے انہیں اپنے دو بیٹوں کے سپرد کردیا جو انہیں مکے کی سڑکوں پر ہر طرف گھسیٹنے پھرتے تھے انہیں تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھے گئے۔لیکن وہ خدا کے عشق میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ ان کی زبان سے سوائے احد احد کے کچھ نہیں نکلتا تھا۔
آغاز اسلام کے پیروکاروں کو بارہا زنجیریں پہنا کر تپتی زمین پر کھڑا رکھا گیا لیکن ان کے پایہ استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی ۔ایک دن دوپہر میں مشرکین نے انہیں عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا آپﷺدوسرے مسلمانوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہے تھے جب ان کے قریب آۓ تو فرمایا الیاس صبر کرو اللہ تعالی نے تم سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
اسلام میں شہیدہونے والی سب سے پہلی خاتون ام عمار یعنی سمیہ رضی اللہ تعالی عنہا تھی جن کو ابوجہل نے ان کے دل میں تیز دھار خنجر جیسا ہتھیار مار کرشہید کردیا ۔
ایک بار اڑتیس صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھما جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ شامل تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار اسلام کی اجازت طلب کی آپ ﷺ نے اجازت دے دی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کو لے کر مسجد میں گئے اور تقریر کرتے ہوئے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تقریر سنتے ہی کفار نے مسلمانوں پر حملہ کردیا۔ سب سے زیادہ چوٹیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو آئیں چہرے پر اتنی ضربات تھیں کہ پہچان مشکل ہوگئی ان کے جانبر ہونے کی امید نہ تھی ان کی یہ حالت دیکھ کر نبی کریمﷺ آبدیدہ ہوگئے۔
ہجرت حبشہ کے وقت آپ ﷺکی بیٹی حضرت زینب کو برے طریقے سے شہید کر دیا گیا وہ چٹان پر گریں اور ان کا حمل ساقط ہوگیا۔پھر مسلسل تکلیف میں رہنے کے بعد فوت ہو گئیں۔
منظر بدلتا ہے اسلام کو کچھ قوت حاصل ہوتی ہے۔آپ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آچکے ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد بڑھتے ہی جہاد کا حکم نازل ہو گیا ۔چار بڑے غزوات اور سریا میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ آپ کے رشتہ دار بھی شہید کر دیئے گئے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں پر اللہ کا خاص کرم تھا ۔نشاندہی فرشتوں کے ساتھ انہیں نصرت دی گئی اور فتح و کامرانی ان کا مقدر بنیں لیکن
جنگ احد میں مسلمانوں کے لئے آزمائش بن گئی اس جنگ میں نبی کریمﷺکا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا اور سامنے کے دندان مبارک شہید ہو گئے۔
آپ ﷺکے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک وحشی حبشی نے شہید کر دیا۔ہندہ بنت عتبہ حضرت حمزہ کی شہادت کی خبر سن کر وحشیوں کی طرح دوڑتی ہوئی آئی اور ان کا سینہ چاک کرکے کلیجہ نکالا اور چبانے لگی جب نہ نگلا گیا تو اسے چبا کر تھوک دیا۔حضرت محمدﷺ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش کے پاس کھڑے ہوگئے اور آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ایسی مصیبت جیسی حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ پر پڑی دنیا میں کسی پر نا پڑی ہو گی۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لاش کی حالت دیکھ کر حضرت صفیہ جوحضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن تھیں فطرتا زاروقطار رونے لگیں لیکن انہوں نے بھی اسے رضائے الہی کہہ کر بڑے صبر کا ثبوت دیا۔
غزوہ موتہ میں جس روز جعفر بن ابی طالب شہید ہوئے اسی روز حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبداللہ بن جعفر کو بلا کر اپنی گود میں بٹھایا ان کی پیشانی اور آنکھوں پر بوسے دیے جبکہ آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
نبی اکرمﷺ کے بیٹے ابراہیم جو ماریہ قبطیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے بطن سے تھے بچپن میں ہی فوت ہو گئے آپﷺ ان پر جھک کر روۓ یہاں تک کہ آپ کے دونوں جبڑے اور دونوں پہلو ہلنے لگے اور پھر فرمایا آنکھیں روتی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم وہ بات نہیں کرتے جو رب کو ناراض کر دے۔
یہ تو چند واقعات ہیں جب کہ نبیﷺ کی زندگی غم و الم سے ہی عبارت تھی آپ کی آنکھیں ہنجو برساتیں کیونکہ آپﷺ جیسا نرم دل انسان دنیا میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا جنہیں رحمت اللعالمین کا خطاب دیا گیا۔ اپنے بیٹے ابراہیم جو چھ ماہ کے تھے ان کی وفات پر آپﷺ رونے لگے تو ایک صحابی نے کہا یا نبی ﷺ یہ آنسو کیسے آپﷺ نے فرمایا آنسو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں لیکن زبان سے ہم وہی کہیں گے جو اللہ چاہے گا یعنی کہ آپ نے زبان سے کبھی کفریہ کلمات نہیں کہے اور نہ ہی ہاتھوں کو سینے پر مارا۔
مزید تاریخ میں آگے بڑھیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں بہت سے فتنوں نے سر اٹھایا جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بڑے افہام و تفہیم اور طاقت کے وار سے ختم کیے۔
۔سن 13 ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا دور خلافت ہمیں یاد ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنی جرات و بہادری اور طاقت سے بیت المقدس کے علاوہ 22 لاکھ مربع میل پر اسلامی سلطنت کو وسعت دی اور بہت سی اصلاحات کی آپ پر رومی گرامی گھرانے کے ایک مجوسی ابو لؤلؤہ فیروز نے 26 ذی الحجہ کو دو دھارے خنجر سے وار کیے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو مسجد سے اٹھا کر گھر لایا گیا تین دن کے بعد آپ وفات پا گئے اور آپ کو حجرہ نبویہ میں یکم محرم کو دفن کیا گیا۔ اگر شریعت اسلامیہ میں ماتم کی اجازت ہوتی تو دنیا اس بے باک اور نڈر شخصیت پرصدیوں نوحہ کرتی۔
سن 24 ہجری کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کی گئی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے 24 تا 35 تک نظام خلافت احسن انداز سے چلا یا پھر کچھ شر پسند لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت سے بغاوت کر دی اور عوام کو بھی اس بات پر اکسایا۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو چالیس دن کے لیے گھر میں قید کر دیا گیا آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا کھانا اور پانی بند کر دیا گیا ذوالقعدہ کے آخر سے لے کر آٹھ ذوالحجہ تک مسلسل محاصرہ رہا۔ انصار و مہاجرین میں سے 700 کے قریب لوگ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے لیکن آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سب کو واپس بھیج دیا اور انہیں قسم دی کہ وہ اپنے ہاتھ کو روکے رکھیں گے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپﷺ نے فرمایا اے عثمان ہمارے پاس افطاری کرنا بس آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی دن روزہ رکھا اور باغی لوگ دروازوں اور دیواروں سے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر داخل ہو گئے اور اسی روز آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کر دیا گیا۔اسود بن حمران نامی شخص نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے سینے پر برچھا مارا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو قتل کر دیا ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اس وقت قرآن کی تلاوت کر رہے تھے ۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے آخر کا زمانہ فتنے سے بھر گیا اور بہت سے صحابہ اس فتنے سے الگ رہے کیونکہ اس دور خوارج کی جماعت نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا گھیراؤ کر لیا تھا۔18 ذی الحجہ کو جمعہ کے روز آپ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوگئے اور ذوالحجہ کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مسند خلافت پر فائز ہوگئے۔
خوارج کے بارے میں متفق علیہ کی حدیث ہے کہ لوگوں کے انتشار کے وقت خوارج نکلیں گے اور انہیں دو فرقوں میں سے بہتر فرقہ قتل کرے گا۔ان خوارجیوں میں سے ہی ایک شخص ابن ملجم تھا جب سترہ رمضان کی صبح فجر کی نماز پڑھانے کے لئے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ باہر نکلے تو اس نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے سر پر تلوار ماری تو آپ کے سر سے خون آپ کی داڑھی پر بہنے لگا ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو گھر لایا گیا۔حتی کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا 17 رمضان 40 ہجری کو شہید ہو گئے۔
تاریخ پر مزید نظر دوڑائیں تو 61 ہجری کا واقعہ یاد آ جاتا ہےجب امیر معاویہ کی وفات ہوگئی تو یزید بن معاویہ نے خلافت سنبھالی اس نے تمام امراءاور کبار صحابہ کو اپنی بیعت کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے قبول نہ کیا اور ایسا آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے عراقی عوام کی طرف سے آنے والے خطوط کی وجہ سے کیا جو آپ کو وہاں بلا رہے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ اپنے اہل و عیال کو مکہ سے لے کر روانہ ہوگئے۔ جب آپ کربلا کے مقام پر پہنچے تو ابن زیاد نے چار ہزار فوج کے ساتھ آپ کو گھیر لیا اس نے نہ صرف آپ کے خیموں کو آگ لگا دی بلکہ ایک ایک کر کے اہل بیت کو بھی شہید کر ڈالا ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہیدکر کے آپ کا سر یزید کے پاس لے آیا۔ اسلام کی تاریخ میں ایسا اندوہناک واقعہ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہےاور ظالم کے حوصلے پر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے جس نے اپنی فوج بالخصوص شمر کے ساتھ مل کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے نانا کی بھی لاج نہ رکھی۔
73 ہجری میں میں حجاج بن یوسف (اللہ اس کا بھلا نہ کرے) ذوالحجہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کا محاصرہ کیا ۔پانچ ماہ 17 راتوں تک محاصرہ کیے رکھا اور جمادی الاول میں انہیں قتل کردیا گیا اور آپ کے جسم کو ایک گھاٹی پر لٹکا دیا ۔
مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور تعصب نے اسلامی حکومت کو بہت نقصان پہنچایا اور ہم نے اس راہ میں بہت سے نایاب ہیرے بھی کھو دیے۔ آپس میں مسلمانوں کے انتشار و افتراق کی وجہ سے چنگیز خان’ ہلاکو خان ‘فرنگیوں اور تاتاریوں کو مسلمانوں پر چڑھنے کا موقع ملا ۔مصداق اس شعر کے ۔
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے گھر میں رستے بنا لیے
617 میں چنگیز خان نے اپنے ساتھی تاتاریوں کے ساتھ مل کر چین کے دور دراز علاقوں سے لے کربلا عراق اور بہت سے مسلم ممالک پر قبضہ کرلیا وہ جس شہر میں داخل ہوتے سب کو قتل کر دیتے تھے سامان لوٹ کر اسے تلف کر دیتے مسلمانوں کے خزانے سے ریشم اکٹھا کر لیتے اور جب ان سے نہ اٹھایا جاتا تو اسے آگ لگاتے اور پھر تماشا دیکھتے ۔
656ھ میں تاتاریوں نے بغداد سے جنگ کی ،مسلسل چالیس روز تک ان کی تلوار مسلمانوں پر چلتی رہی اس معرکہ میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیا گیا حتیٰ کہ گلیوں میں خون کے نالے جاری ہوگئے اور دریا سرخ ہوگیااس طرح تاتاریوں نے بنو عباس کی شاندار حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔
مزید آگے بڑھتے جائیں تو1857 میں بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں اور
1947 میں ہجرت پاکستان کے وقت مسلمانوں کی خون میں لتھڑی ہوئی لاشیں آزادی کا تحفہ بنا کر پاکستان میں بھیجی گئیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ تاریخ کے یہ لہو لہو اوراق ہمارے لئے عبرت کا باعث ہیں نہ کہ تعصب اور انتشار کا۔ اگرہم ماتم کی بات کریں (جو کہ اسلام میں ممنوع ہے )تو پھر ہم سارا سال ہی ماتم کرتے رہیں کیوں کہ اسلامی تاریخ میں کوئی مہینہ بھی ظلم و جبر سے خالی نہیں تو تاریخ سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے ۔ساتھ ہی ساتھ صبر و تحمل اور اللہ سے استعانت مانگنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام حالات میں ہماری نظر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ہونی چاہیے کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اطیعو اللہ و اطیعو الرسول
اور ایک آیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔
غور و تدبر کرنے کے لئے قرآن کی یہ آیت ہی کافی ہے
واستعینوا بالصبر والصلوہ اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو
اور اگلی ایک اور آیت میں ہے کہ البتہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے خوف بھوک مال اور ثمرا ت کی کمی سے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں سورۃ (البقرہ )
دور حاضر میں تفرقہ بازی سے زیادہ کفر کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ہم غلام مسلمانوں کو پنجہ غلامی سے چھڑا سکیں۔ جب ہم اللہ تعالی کے حکم پر چلیں گے تو وہ ہماری مدد ضرور کرے گا اور غیبی مدد سے حق پر چلنے والوں کو فاتح ونصرت سے مالامال کر دے گا ۔ان شاءاللہ عزوجل