تحریر:سمیرا صدیق
“اسرائیل کی اہل غزہ پر جاری جارحیت کو ایک سال بیت گیا۔” گاؤں کے درمیان لگے بوڑھے آم کے پیڑ کے سائے تلے پلے بڑے چند نوجوان محو گفتگو تھے۔
“آہ غزہ۔۔۔ایک سال بیت گیا۔۔۔میرا دل بھی تیرے دکھ میں بے قرار ہے۔اور تیرا غم۔۔۔میرے دل کو کھا گیا ہے۔”ایک درد بھری آواز سنائی دی۔
“ہمیں صلاح الدین کے ڈرامے دکھا کر۔۔۔خود کو اہل غزہ کا ہمدرد گرداننے والے اس بیتے سال میں اور کیا کر سکے۔”تاسف بھری آواز گونجی۔ “آہ۔۔۔ہم بھی کچھ نہ کر سکے۔” درد سے بھری آواز پھر سنائی دی۔
“ساتھیو! ہم خود کو دکھ اور غم کے سمندر میں ڈوبنے نہیں دیں گے۔ ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔ فلسطین اور غزہ کی اس جنگ میں آخری دم تک ہم اپنا حصہ شامل کرتے رہیں گے۔ہم اب بھی اسرائیل اور اس کے ساتھیوں کی مصنوعات کا ہر لمحہ بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔
اپنی آخری سانس تک اپنے مال کے ذریعے۔۔۔اپنےقلم کے ذریعے۔۔۔اہل فلسطین اور اہل غزہ کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ ان شاءاللہ”اس پرجوش آواز نے بیتے سال کے سارے درد پر ایک مرہم رکھ دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *