تحریر: بنت ابو بلال
فریادِ کشمیر
15 جولائی کے اخبار میں ایک دکھیاری زخمی بچی کی تصویر شائع ہوئی ہے…… یہ تصویر مقبوضہ کشمیر کی ایک بچی کی ہے…… جس کی آنکھوں پر سفید پٹی بندھی ہے…… خوبصورت شہابی گالوں والی بچی بھارتی سفاکوں کے چھروں سے زخمی ہے۔ تصویر کے نیچے درج ہے “بھارتی فوج کی فائرنگ سے مہلک چھروں سے بینائی سے محروم ہونے والی کشمیری لڑکی “افشا ملک” زیر علاج ہے۔” اس مظلوم بچی کی تصویر نے ہر درد دل رکھنے والے انسان کو خونی اشک بہانے پر مجبور کر دیا۔ہر بار رب قدوس سے اس کی صحت یابی کے لیے دعا نکلی اور امت مسلمہ کے لیے بھی دعا نکلی کہ وہ ان بچیوں کی مدد کے لیے نکلیں تاکہ وہ کفار کے چیلوں سے بدلہ لے سکیں تاکہ ان کا دل بھی ٹھنڈا ہو سکے اور انہیں پتہ چلے کہ دنیا میں اس کے اپنے مسلم بھائی موجود ہیں جو اپنی مظلوم بہنوں کی خاطر جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔
مودی کی دہشت گرد افواج میری کشمیری ماؤں، بہنوں، بیٹیوں پر گولیاں چلاتی ہیں….. ان کی آنکھوں میں زہریلے چھرے مار کر ان کی بینائی چھین لیتی ہیں۔بھلا ان کا قصور کیا ہے، صرف یہی کہ وہ کشمیر کی مسلمان بیٹی ہے۔ اس کو مسلمان ہونے کی اتنی کڑی سزا سے ظالموں نے دوچار کیا ہے۔
کشمیر کی نیلی آنکھوں اور شہابی رخساروں والی پاکباز ننھی بیٹیاں کن خوفناک دہشت ناک حالات سے دوچار ہیں اور بھارتی درندگی کا کس کس طرح نشانہ بن رہی ہیں…….. یہ مظلوم بھارتی فوج کے درندوں کے رحم و کرم پر اپنی بھیانک زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں….. سرینگر سے 28 کلومیٹر شمال کی جانب چھ گاؤں پر مشتمل علاقہ “صفہ پور” ہے جو دو خوبصورت جھیلوں کے درمیان واقع ہے۔ انہی پرفضا وادیوں میں کرش ٹاپ کے دامن میں آباد گاؤں “چیوا” ہے۔
جب صبا کا بدلہ لینے کوئی نہ پہنچا تو اس نے خود کو آگ کے حوالے کر دیا اور کئ دن ہسپتال میں تڑپ تڑپ کر سارے غموں سے آزاد ہو گئ۔
دعوت و جہاد اور تحریک آزادی کے جذبے سے بے پناہ محبت کرنے والی اس علاقے کی رہنے والی ایک بیٹی نے مجاہد کمانڈر” غازی بابا” پر کتاب لکھی، ان سے متاثر ہوئی، پھر ان کی اہلیہ بن گئی “سعدیہ جہادی” نے “غازی بابا” شہید کی بھارتی فوج کے خلاف زبردست کاروائیوں سے متاثر ہو کر ان کی شریک حیات بننا پسند کیا۔ پھر اس بہادر اور جہادی جذبے سے سرشار غازی بابا کے ساتھ کشمیر کی وہ پاک باز بیٹی غازی بابا شہید کے شانہ بشانہ کشمیر کے جنگلوں، پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں پر بھارتی فوج کے خلاف برسر پیکار رہی…….. سیدہ خولہ، سیدہ ام عمارہ اور سیدہ خنساء کی یہ روحانی بیٹی اپنی کتاب کے صفحہ 71 پر لکھتی ہے کہ
ظہر اور نماز عصر کا درمیانی وقت تھا۔ قریبی گاؤں “تکیہ بالا” میں اسی وقت کریک ڈاؤن ختم ہوا تھا، بھارتی فوج گاؤں سے بمشکل ابھی باہر نکلی ہی ہوگی کہ فضا اچانک نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھی “تکیہ بالا” کے لوگوں کے ساتھ ہماری قریبی رشتہ داریاں تھیں، ان کے نعروں کو سن کر ہمارے گاؤں کے لوگ بھی مین روڈ پر جمع ہو گئے۔
مظاہرین کندھوں پر چارپائی اٹھائے چلے آرہے تھے…… ہم سمجھے کہ شاید بھارتی قاتلوں نے پھر کسی کو شہید کر ڈالا۔ مگر کاش ایسا ہی ہوتا! اگر یہ کسی شہید کشمیری نوجوان کی لاش ہوتی تو غم تو ہوتا لیکن چاہے درجنوں مسلمانوں کی لاشیں بھی ہوتیں، تب بھی اتنے دکھ اور ملال کی بات نہ ہوتی…….. ہائے افسوس یہ ایسا سانحہ تھا جس پر عرش الہی بھی ہل گیا ہوگا؟ یہ اسلام کی ایک پاک باز بیٹی کا جنازہ تھا، ایک غریب مفلس کشمیری باپ کی غیرت کا جنازہ تھا اور ایک لڑکی کے ارمانوں کا جنازہ…… غریب محمد سلطان کی بیٹی راشدہ کے پاس نہ دولت تھی اور نہ زیور، بس اس کی عزت کا نایاب گوہر ہی اس کا گہنا تھا…… اس کا کل سرمایہ تھا۔ اس نے ابھی تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا……. بھارتی فوج کے متکبر، مغرور، فرعونی لچھن والے ظالم، بے حیا، دہشت گرد اور شیطان نما درندے میجر نے اس عفت مآب بیٹی کی کل متا یعنی گوہرِ عصمت کو کرچی کرچی کر ڈالا اور فخریہ متکبرانہ قہقہے لگاتا رہا۔
محمد سلطان کے گاؤں والے اپنی بیٹی راشدہ کو چارپائی پر ڈالے آہوں، سسکیوں اور خونی اشکوں کے دھارے میں انصاف کی تلاش میں (مگر ظالموں سے انصاف کہا) سری نگر کی طرف رواں دواں تھے، ان کے لبوں پر دلوں کو تڑپا دینے والا نعرہ تھا۔
مسلمانو بیروبا، ارچھ ماتم جا بہ جا
اے مسلمانو! نکل آؤ……. آج چار سو ماتم ہے۔
مظاہرین کے نعرے سن کر لوگ گھروں سے نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ چارپائی پر شاید جنازہ جا رہا ہے مگر یہ تو وہاں معمول کی بات تھی، مگر افسوس سانحہ اس سے بھی سوا تھا۔یہ راشدہ سلطان کی عصمت کا جنازہ تھا جسے ایک درندہ صفت میجر نے تار تار کر ڈالا تھا۔
یہ نعرہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر کے گلی کوچوں میں گونج رہا ہے اور اس کے اندر دکھ درد، غموں، سسکیوں، آہوں، چیخوں، کی دلدوز داستان چھپی ہے۔ راشدہ کا بوڑھا باپ آج بھی بیٹی کے غم میں ہلکان ہے اور دنیا کے مجاہدوں اور غیرت مند مسلم نوجوانوں سے سراپا سوال ہے کہ ہے کوئی جو اس کشمیری بابا کی عزت کا بدلہ اتار کر ان ظالم درندوں کو وہ سبق سکھا دے کہ میرا کلیجہ بھی ٹھنڈا ہو سکے، بھلا میری بیٹی کا قصور، ذرا بتا دیجئے۔
میڈیا بھی بھارتی قبضے میں ہے، اس لیے بھارتی فوج کو ظلم و بربریت کی ہر حد سے گزرنے کی کھلی چھٹی ہے اور آج ان عزت کے لٹیروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں، مسلم دنیا غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہے۔ سعدیہ جہادی اگلی داستان علم بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ
نسیمہ ایک کشمیری، خوبصورت، باحیا اور انتہائی کم گو لڑکی تھی…….. وہ میری کلاس فیلو تھی، منفرد طبیعت، کی مالک، سلجھی ہوئی اور بردبار سی وہ لڑکی مجھے اکثر یاد آتی ہے۔ اس کے والد پولیس کے محکمے میں ملازمت کرتے…… گھر میں بہن بھائیوں میںسے وہی بڑی تھی۔ کشمیر میں انڈیا کے ظلم و ستم کی وجہ سے والدین کو دن رات یہ فکر دامن گیر رہتی کہ بیٹی عزت و آبرو کے ساتھ اپنی گھر کی ہو جائے………نسیمہ کے والدین نے پڑھائی کے دوران ہی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر کے سکھ کا سانس لیا۔ شادی کے ایک سال بعد اللہ تعالی نے اس کو پیاری سی بیٹی دے کر ماں کے رتبے پر فائز فرما دیا۔ ابھی ننھی سحر چند ماہ کی ہوئی تھی کہ ایک رات میںجر یادھو نے ان کے گھر پر چھاپے کے نام پر ہلہ بول دیا…… نسیمہ نے شوہر کو ظالم فوجیوں کے شکنجے سے چھڑانے کی کوشش اور منت سماجت کرتے ہوئے کہا کہ میرے سرتاج کو کس جرم میں لے کر جا رہے ہو…….. بس اس بات پر ظالم ہندو میجر نے گولیوں کا ایک برسٹ چلایا…….. تمام گولیاں اس کے پیٹ میں پیوست ہو گئیں…… اور وہ میری پیاری بہنا موقع پر جام شہادت نوش کر گئی۔
صبا رشید چار بھائیوں کی اکلوتی لاڈلی بہن تھی……. اس کی ذہانت پر اس کے اساتذہ بھی رشک کرتے تھے……..وہ بانڈی پورہ کی رہنے والی تھی، اس کے بڑے بھائی ظہور احمد کی بانڈی پورہ چوک میں الیکٹرک کی بڑی دکان تھی……. اس دوکان کے قریب فوجی کیمپ سے بجلی کا کام کروانے کے لیے آنے والے آرمی کے فوجی اس دکان آۓ تو دکان پر موجود نہ تھا……. آرمی والے اس کا پتہ کرنے کے لیے اس کے گھر پر چلے گۓ۔ وہاں پر دیپک کمار نام کے آرمی افیسر کی نظر ظہور احمد کی بہن صبا پر پڑ گئی اور پھر اس کمبخت نے اس دن طاقت کے زور پر “صبا” کو اغوا کر لیا….. لوگوں نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے…….. لیکن سیکولر بھارت کے فوجی افسر پر کوئی اثر نہ ہوا معصوم کشمیری کلی 15 دن اس شیطان کی قید میں رہی……. پھر جب اس بھارتی ظالم کا دل بھر گیا تو اٹھا کر چوک میں پھینک دیا…….. اس کا قصور اور گناہ کیا تھا، ذرا بتائیے گا ضرور۔
صبا گھر کے کمرے میں محصور ہو کر رہ گئی۔ نہ کسی سے ملتی اور نہ ہی کسی سے بات کرتی، پھولوں کی طرح شوخ و چنچل اور ہر وقت ہنستی مسکراتی لڑکی پت جھڑ کے زرد پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئی۔ اس کے لیے اب اس دنیا میں رہ ہی کیا گیا تھا۔
میجر دیپک کمار درندے نے گن پوائنٹ پر صبا کو اغوا کر لیا 15 دن تک اس کی عزت سے کھلواڑ کرتا رہا۔
ماں باپ اور بھائیوں کی محبت بھری نگاہیں اب آنسوؤں سے تر رہتی ہیں…….. اس کی عصمت تار تار ہو چکی ہے۔ ہاں یہی تو عورت کا زیور ہے، سرمایہ ہے…. وہ سوچتی، میں دامن پر یہ داغ لے کر کب تک جی سکوں گی…… اس کے ضمیر نے اسے کہا……… عزت کے بغیر کوئی زندگی نہیں۔ پھر اس نے ایک خطرناک فیصلہ کیا……. چنانچہ ایک دن اس اندوہناک خبر نے ہم سب پر سکتہ طاری کر دیا…… ہمیں خبر ملی کہ “صبا” نے خود کو آگ کے شعلوں کے حوالے کر دیا ہے……… یہ فیصلہ انتہائی جذباتی تھا کہ خود سوزی تو حرام ہے، ذرا صبر و تحمل سے کام لیا ہوتا۔ اس کے بھائی اس کا بدلہ اتارتے تو شاید وہ ایسا کبھی نہ کرتی…… وہ سری نگر کےایس ایم ایچ ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہی۔ ناز و نعم میں پلنے والی وہ شہزادی کئی دن ہسپتال میں تڑپتی رہی…….. آخر کار سارے غموں سے آزاد ہو گئی۔ اس آدھ کھلی کلی کے عین شباب میں مرجھانے پر پورا کشمیر سوگوار ہے۔ ہر آنکھ اشکبار…… اور ہر وقت مسکرانے والی “صبا”ہم سب کو سوگوار اور ہم سب کو رلا رلا کر دنیا سے چلی گئی۔ “صبا” کا جھلسا ہوا آبلوں سے بھرا لاشہ گویا چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ ہے کوئی جو بھارت کے ظالموں سے میرے خون کا حساب لے سکے…… ہے کوئی جو میرے خون ناحق کا بدلہ لے؟ اور میری عزت کے لٹیروں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔
تاہم آج الحمدللہ ان کشمیری بہنوں کے مجاہد بھائی ان کے بدلے اتارنے میں پیش پیش ہیں۔ دشمنوں سے خوب پنجہ آزمائی کر رہے ہیں کیونکہ دشمنوں کی پھر شامت آئی ہے اور وہ ظالم کفار پر موت کا پیغام بن کر جھپٹ رہے ہیں اور ظالموں کو ذلیل و خوار کر کے شہادتوں پہ شہادتیں پیش کر رہے ہیں۔ ذرا دیکھو تو سہی، عنقریب یہ منظر بدلے گا اور کشمیر پاکستان بنے گا۔ ان شاءاللہ