از قلم:عظمیٰ ناصر ہاشمی
آلو لے لو ۔۔۔۔۔۔۔ پیاز لے لو ۔۔۔۔۔۔۔ٹماٹر ۔۔۔کھیرے۔۔۔۔۔ گاجر ۔۔۔۔۔مٹر لے لو ۔
سبزی بیچنے والے کی آواز سن کراحمد علی نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔۔ُ۔۔۔۔
سبزی تو تازہ ہی نظر آ رہی تھی ،ریڑھی پر پڑے گوبھی کے پھول بھلے لگ رہے تھے اور پالک کے پتے بھی سرسبز دکھائی دے رہے تھے ۔
احمد علی نے اپنی بوسیدہ سی قمیض کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کل کی دیہاڑی کے پیسے گننے لگا ۔کافی دنوں بعد اسے مزدوری ملی تھی ورنہ روزانہ وہ اڈے پر کھڑا ہوتا اور کام نہ ملنے پر رات کو منہ لٹکائے واپس آ جاتا ۔۔آج اس کے پاس کچھ پیسے تھے۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ وہی بات۔۔۔۔۔۔۔ حسرت نا تمام ۔۔۔۔۔۔۔” اخراجات زیادہ آمدن کم ” مگر سبزی تو اسے لینی ہی تھی ساتھ ساتھ بوڑھی والدہ کی دوائیں بھی لینا ضروری تھی ۔
دروازے سے نکلتے نکلتے بیوی نے بل تھمایاکہ اس کی آخری تاریخ تھی۔
منی دوڑتی ہوئی آئی بابا میرے لیے کیلے لیتے آنا ۔
احمد علی اپنی پریشانی کو چھپائے اچھا اچھا کہتا گھر سے باہر نکل آیا ۔
آلو کتنے روپے بھائی ؟
صرف 80 روپے۔۔۔۔۔۔۔ دکان دار نے جواب دیا ۔
پچھلے ہفتے تو چالیس تھے ۔۔۔۔۔۔
کیا کریں منڈی سے اس طرح ہی ملے ہیں جناب ۔
آدھا کلو آلو دے دو اور اس میں ایک تماٹر اور دو تین ہری مرچیں ڈال دو ۔
ہری مرچیں مفت نہیں ملیں گی۔
احمد علی سبزی فروش کو تاسف سے دیکھتا رہ گیا جیسے کہہ رہا ہو منڈی والوں نے تمہارے ساتھ جو کیا سو کیا تم غریب عوام کے ساتھ کیا کر رہے ہو ۔
احمد علی نے آ لو گھر میں رکھے اور بل جمع کروانے چل پڑا کیونکہ بجلی کٹ جائے یہ کسی صورت اسے گوارا نہ تھا ۔ایک بار وہ میٹر کٹنے کا عذاب گرمی میں بچوں کے بلکنے کی صورت میں سہہ چکا تھا ۔
بل کے پیسے گن دوسری جیب میں ڈالے اور لمبی قطار میں کھڑے ہوکر بل جمع کروایا ۔
اب وہ اماں کے لیے دوائی لینے میڈیکل سٹور جانے والی سڑک ناپ رہا تھا دل ہی دل میں پیسے پورے ہونے کی دعا بھی کر رہا تھا ۔
بڑی مشکل سے دوا ملی اور وہ بھی ڈبل قیمت کی مد میں( جسے روزانہ کھانے کے باوجود اماں کی تکلیف ویسے کی ویسے تھی )
جیب میں دیکھا صرف 50 روپے باقی تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذہن میں جھماکا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔منی کے کیلے ۔۔۔۔۔۔۔ایک کیلے والا پاس سے گزرا۔
کیلے کتنے روپے درجن بھائی ؟
دو سو روپے درجن ۔۔۔۔
احمد علی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں ۔
یار ۔۔۔۔۔۔ ۔ بچوں کے لئے لے کر جانے ہیں کچھ تو کم کرو
کیسے کم کریں ؟؟؟
ابھی تو ماہ رمضان میں ریٹ اور بڑھ جائے گا ۔۔۔۔۔ریڑھی والا ڈھٹائی سے بولا
احمد علی نے جھینپ کر کہا میرے پاس پچاس روپے ہیں
کتنے کیلے دو گے؟
کیلے والے نے طنزیہ نظر سے اسے دیکھا اور چار کیلے اسے پکڑائے جس میں ایک گلا ہوا لگ رہا تھا ۔
احمد علی نے انہیں ہی غنیمت جانا اور گھر کی راہ لی ۔
گھر جا کر چیزیں بیوی کے سپرد کیں اور چارپائی پر لیٹ گیا ۔
خبروں کا چینل چل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان کی آمد آمد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر شے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملک بھر میں آٹا اور چینی کا فقدان۔۔۔۔۔۔۔ یوٹیلٹی سٹور کے سامنے عوام کی لمبی لمبی قطاریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ٹماٹر نے سینچری مکمل کرلی۔۔۔۔۔۔۔۔ مرغی کی قیمت نے سب کے ہوش اڑا دیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود ساختہ مہنگائی کا بازار گرم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آٹا دال چاول جینی سمیت پھلوں اور سبزیوں کی قیمت میں دوگنا اضافہ ۔۔۔۔۔۔۔سفید پوش لوگ پریشان۔
احمد علی نے ٹی وی بند کیا
اللہ اکبر اللہ اکبر
اشھد اناللہ الہ الا اللہ
اپنے رب سے شکوہ شکایت کرنے وہ مسجد چل بڑا
نماز پڑھ کر ذہنی سکون ملا کوئی اور نہیں تو میرا مشکل کشا میرا رب ہے ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی میرا خالق ہے۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔حقیقی رازق بھی وہی ہے ۔
وہی میری سنے گا اور مجھے عطا کرے گا۔
نماز پڑھ کر وہ مسجد سے نکلا مسجد سے تھوڑے فاصلے پر وہی کیلے والا ایک کونے میں گلے سڑے کیلے پھینک رہا تھا ۔
اس نے کیلے گلا کر پھینکنے گوارہ کر لے مگر کسی غریب کے منہ میں سستی قیمت پر جانے نہیں دیے ۔
اب کہ احمد علی نے اس کی طرف طنزیہ مسکراہٹ اچھالی ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تم سمجھ رہے تھے کہ میں لوگوں کو لوٹ کر ڈھیر ساری رقم کما لوں گا لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقی رازق تو اللہ ہے
اگر یہی کیلے کسی کا احساس کرتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے کسی کو مناسب دام میں دیے جاتے تو اللہ تعالی انہیں گلنے سڑنے سے بچالیتا اور برکت بھی ڈال دیتا ۔
“احمد علی” غریب انسان کے روپ میں چلتا پھرتا کردار ہے جو بازاروں میں گھوم پھر کر یہ کہتا ہوا دکھائی دیتا ہے
“کرو مہربانی تم اہل زمین پر خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر “
جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ راتوں رات مرغی میں سے سونے کے انڈے نکال کر امیر ہو جائے گا تو یہ اس کی بھول ہے ۔۔۔۔۔
کیونکہ
“حقیقی رازق” تو وہی اللہ ہے جو
پتھر میں بھی کیڑے کو روزی دیتا ہے
اور بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے ۔
جس سے چاہتا ہے رزق چھین لیتا ہے ۔
اگر کسی کو یہ گمان ہے کہ مار دھاڑ کرنے سے۔۔۔۔۔۔ فراڈ سے۔۔۔ُ۔۔۔۔۔ دھوکے سے ۔۔۔۔۔۔زیادتی کر کے وہ اپنے رزق میں اضافہ کر سکتا ہے تو یہ اس کی بھول ہے ۔
اگر اس طرح کسی تاجر کے رزق میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ برکت نہیں بلکہ اللہ تعالی نے اس کی رسی کو ڈھیلا کیا ہوتا ہے ۔اور جب وہ مالک پکڑنے پر آتا ہے تو پھر “ان بطش ربک لشدید”۔۔۔۔۔۔ کے مصداق اس سے بچانے والا کوئی نہیں ہوتا ۔اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسے لوگوں نے جنہوں نے لاکھوں پیسے کمائے ہوتے ہیں اس سے کہیں زیادہ لاکھوں کا مال منٹوں سیکنڈوں میں تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور پھر وہ حسرت بھری نظروں سے دیکھتے رہ جاتے ہیں،
کیوں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقی رازق تو اللہ ہی ہے نہ
تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ہر تاجر جان لے کہ ۔۔۔۔۔۔رازق اللہ ہے
ہر زمیندار جان لے کے رازق اللہ ہے
ہر ایک احتکار( ذخیرہ اندوزی) کرنے والا جان لے کہ رازق اللہ ہے
ہر غش (ملاوٹ کرنے والا )جان لے کہ رازق اللہ ہے ۔
ہر مطفف( ناپ تول میں کمی کرنے والا) جان لے کہ رازق اللہ ہے ۔
سارا دن پھل سبزیاں ریڑھی پر سجانے والے رات کو گلی میں خراب ہونے کے ڈر سے آدھی قیمت پر بیچتے دکھائی دیتے ہیں ۔
ہمارا ملک الحمدللہ زرعی ملک ہے جہاں فصلوں کی کمی نہیں ہو سکتی۔
وہ رب بے حس اور مردہ ضمیر قوم کے لئے بھی دھڑا دھڑفصلیں اگائے چلا جا رہا ہے ۔
جب بھی کوئی نئی فصل تیار ہوتی ہے بیچنے والے اسے دگنی تگنی قیمت پر بیچنے لگتے ہیں جب اس پھل یا سبزی کی زیادتی( جس میں اللہ کا کمال ہے بندے کا نہیں) ہو جاتی ہے تو غریبوں کا خون چوس کر انہیں ترسا کر وہ چیزیں سستی کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
خدارا!!!
اللہ تعالی کا خوف دل میں پیدا کریں وہ رزاق ہے آپ پر مہربان ہے آپ اس کے بندوں پر مہربان ہوجائیے۔
اپنے اندر ایثارو’ ہمدردی’ غم گساری ‘محبت و اخوت کے جذبات پیدا کیجئے۔۔یقین مانیں۔۔۔۔۔۔کسی غریب کا بھلا کرنے سے ۔۔۔۔۔۔۔ایمانداری سے کاروبار کرنے سے کوئی نقصان یا مال ودولت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ خیر و برکت ہوگی اور آپ کا ضمیر بھی مطمئن ہوجائے گا ۔
یہ خیال کہ حقیقی رازق تو اللہ ہے ،کاروباری انسان کی زندگی میں ڈھیروں خوشیاں اور سکون لاسکتا ہے ۔