
از قلم:فاطمہ منیر
حوا ہاسٹل میں رہتی تھی. آج اس کی یونیورسٹی میں ایک تقریب تھی. وہ اور اس کی سہیلیاں اس تقریب کیلئے بہت پرجوش نظر آ رہی تھیں۔ان سب نے مل کر بہت سی پلاننگز کر رکھی تھی. آج ان کے ہاسٹل میں سب جلدی اٹھ چکے تھے کیونکہ ان سب کو تقریب میں شامل ہونے کیلئے تیاریاں کرنی تھی اور یونیورسٹی جلدی پہنچنا تھا. حوا بھی صبح اٹھی.نماز فجر ادا کی اور پھر اپنی تیاریاں شروع کیں.
وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے لمبے، ریشم کی طرح ملائم اور نازک بالوں کو دیکھ رہی تھی. اس وقت اس کے نفس اور, ضمیر کی تکرار کچھ یوں چلنے لگی :
نفس کی پر جوش آواز :
“ارے واہ! تو کتنی حسین لگ رہی ہے، تیرے بال سب سے نمایاں نظر آئیں گے ،تو دیکھنا سب عش عش کر اٹھے گے، ارے واہ تیرا حسن، تیری جوانی…..”
(پلک جھپکتے ہی وہ اپنی خوبصورتی کے سحر اور دیوانگی سے باہر نکلی تو اسے ضمیر کی ایک خبر دار کر دینے والی آواز آئی ) :
“ہاں پتا ہے خوب صورت تو ہو تم مگر اتنا بھی کیا اترانا، اور بھی بہت سی خوب صورتی ہے اس دنیا میں تو اکیلی تو نہیں میری جان….”
نفس :
” ارے اس میں کیا برائی تو اپنی خوبصورتی دیکھ کر خوش ہو رہی ہے. آج تو سب سے اچھی لگے گی دیکھنا. سب تجھے دیکھتے رہ جائیں گے. سب سے الگ نظر آئے گی. دیکھ تو تیرے لمبے لمبے بال.”
ضمیر :
” افسوس! ایسے عام دنوں میں تو سر ڈھانپ کر نکلے اور جب کوئی تقریب آجائے تو تو سر ننگا کر لیتی ہے. پاگل مت بن. ریاکاری ہے یہ. تو اب دکھاوا کرے گی. سوچ اگر کوئی اور لڑکی تیرا حسن دیکھ اللہ سے گلہ کر بیٹھے کہ تو نے مجھے اتنا حسین کیوں نہ بنایا اور وہ احساس کمتری کا شکار ہو جائے .”
نفس :
“تو کیا کرنا اور وہاں انجوائے کرنے جانا. سب کے ساتھ گھلنا ملنا تونے . تیرا بھی دل ہے. تو بھی انسان ہے . تو خود بھی احساس کمتری کا شکار نہ ہو اسی لیے پوری تیاری کے ساتھ جاؤ. تیرا بھی دل کرتااگر تجھے اتنا حسن ملا ہے تو تو لوگوں کودکھاسکے. کچھ نہیں ہو گا. دل تو خوش ہو گا نا. لوگوں کا کیا ہے یہ تو خوش ہوتے ہی نہیں. تیرا جو دل کرے گا وہی کر. “
ضمیر :
” کیسی سوچ ہے یہ کیا تو بھول گئی. تیرے والدین نے تجھے کیا نصیحت کرکے بھیجا ہے کس لیے بھیجا ہے . تیرے والدین جب کسی دوسرے کی بیٹی کو بے پردہ گھومتے دیکھتے ہیں تو کیا کہتے ہیں. اگر تجھے کوئی دیکھے گا تو ایسے ہی کہے گا. تو سوچ تب تیرے والدین کے دل پر کیا گزرے گی.”
(اس نے محسوس کیا کوئی اسے پکار رہا ہے. اس کی دوست زلفے بکھیرے اس کے پیچھے کھڑی کہہ رہی تھی کہ آئینہ ہی دیکھتی رہو گی تو تقریب کا ٹائم نکل جائے گا، جلدی کرو)
نفس کا زبردست بہکاوا:
“ارے چھوڑو! زندگی پڑی ہے ابھی کیا سوچ رہی ہو. ابھی بڑا وقت. فارغ وقت میں کرنے والے کام یہ. ابھی تو تیار ہو. تیرا جانا ضروری ہے تقریب میں. تو نے کتنی تیاریاں کی ہیں کیا کچھ سوچ رکھا ہے اب کیا تو سب بھول گئی اور رہی بات ابا کی تو انھیں کون بتائے گا کہ میں بال کھول کر تقریب میں گئ تھی.”
ضمیر کی مری سی آواز:
“رک جا ، ابھی وقت ہے. رک جا.”
نفس کاتکراری دفاع
: ارے میری جان! دیکھ تو خود کو اتنی حسین تو لگ رہی، جو تو نے سب پہن رکھا اب یہ بغیر دکھائے ہی رہ گیا تو مزہ کہا آئے گا اور دیکھ تیری سہلیاں بھی تو سب ساتھ ہی ہیں. تو کون سا اکیلی ہے.
ضمیر کی کمزور اور نہایت نحیف آواز آخری آواز:
” رک جا!!!!
اے حوا!
ابھی بھی رک جا.”
نفس :
” کیوں پاگل بن رہی ہو. جوانی کے دن ہیں. ابھی تو تمہاری عمر ہنسنے کھیلنے کی ہے. عیش کر. اور اللہ کو راضی کرنا کون سا کوئی مشکل. دو نفل ادا کر لینا توبہ کے. اور اگلی دفعہ نہ کرنا ایسے بس اس دفعہ آخری دفعہ دل کی بات مان لے. ایسے تیرا دل ٹوٹ جائے گا.”
اس دفعہ اس کا ضمیر سو چکا تھا. اس کے ضمیر نے کوئی مزاحمت نہیں کی.
وہ کہا رکتی اب کیونکہ اس کے دل میں چور تھا. اس کا دل و دماغ اس کے نفس کی اتباع میں لگے تھے. تو وہ اپنے اندر کے ضمیر کی کیسے مان لیتی. وہی ہوا جو اکثر ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔
ضمیر کی مات اور نفس کی جیت
یہی کرتے کرتے ہم اپنی آدھے سے زیادہ زندگی اپنے نفس کو جتاتے رہتے ہیں اور ضمیر کو اگلی دفعہ پر ٹالتے رہے ہیں . ہماری انا آڑے آنے لگتی ہے. جو کہ شیطانی رویہ ہے جسے ہم خود اپنے آپ پر حاوی کر لیتے ہیں.
اس کی زندگی یونہی چلتی رہی. وہ خود کو یہی سمجھتی رہی کہ میں بالکل ٹھیک جا رہی ہوں. مگر کیا پتا اس کا رب اس سے ناراض ہو اور وہ اپنی طرف سے ہر چیز کو درست سمجھ بیٹھی ہو جو وہ کر رہی تھی. اللہ نے بھی اپنی بندی ہر ترس کھایا اور اس کی رسی مزید دراز نہیں کی بلکہ اسے آزمائش میں ڈالا تاکہ اسے سیدھا راستہ دکھا سکے.
ہوا کچھ یوں کہ جب وہ تقریب سے واپس آئی تو وہ بہت خوش تھی. اس کی نظر چند لڑکوں پر پڑی جو اسے دکھنے میں اچھے لگے اور مزید اچھا اس کیلئے یہ تھا کہ اس نے محسوس کیا وہ لڑکے اسے ہی دیکھ رہے ہیں. وہ دل ہی دل میں بہت خوش تھی کہ میرے حسن نے دوسروں کو میری طرف متوجہ کر ہی دیا. ہاسٹل واپس آکر اس نے عیشا کی نماز ادا کی. درمیان کی نمازیں تقریب میں قضا ہو چکی تھی.
اگلے دن وہ یونیورسٹی گئی تو مکمل عبایا میں تھی مگر چہرے پر نقاب نہیں کرتی تھی . تو اسے وہی لڑکے نظر آئے. جب اسے محسوس ہوا کہ وہ اسے ہی دیکھ رہے ہیں وہ انھیں جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئی. چنددن ایسے ہی چلتا رہا. لیکن کچھ دن بعد ان میں سے ایک لڑکا اس کے پیچھے آیا. پہلے تو وہ گھبرا گئی. لیکن وہ لڑکا اس کے قریب سے ہو کر چلا گیا. بغیر کچھ کہے. وہ اس طرز عمل پر حیران ہوئی. ایک دن اسے اس کی دوست سے پیغام موصول ہوا کہ کوئی تمہاری محبت میں مبتلا ہو چکا ہے اس نے تمہیں تقریب میں دیکھا تھا. اور اب وہ تم سے خود اظہارِ محبت کرنا چاہتا ہے. تو تم اس سے مل لو.
اس بار پھر اس کے نفس اور ضمیر کی جنگ تھی. مگر ہوا وہی جو اکثر ہوتا ہے ضمیر کو مات دے دی گئی یہ کہہ کر کہ ایک دفعہ ملنے سے کیا ہوتا ہے مل کے دیکھ لینے میں کیا حرج آخر کون ہے اتنا پاگل میرے پیچھے.
اگلے دن یونیورسٹی کے باہر ایک ہوٹل میں جہاں وہ اکثر کھانا کھاتی تھی وہاں اسے ایک لڑکا نظر آیا یہ وہی لڑکا تھا جو اس کے پیچھے بھاگا تھا مگر پاس سے گزر گیا تھا. دل ہی دل میں وہ اسے پسند کرنے لگی تھی. وجہ اور انجام اسے نہیں پتا تھا مگر نفس کا جال مسلسل آ گے بڑھ رہا تھا. اور جب اسے معلوم ہوا کہ وہ لڑکا جس نے اسے پیغام بھیجا یہی ہے تو اس کیلئے اور زیادہ خوشی کا موقع تھا. مگر شاید وہ اپنی ذمہ داری، اپنے باپ کی عزت اور بھائی کی غیرت کو بھول چکی تھی. اس لیے ضمیر کو مات دیتی گئی اور اس کی محبت کو قبول کر بیٹھی.
ہمیشہ یاد رکھیں مرد ہوس کا مارا ہوتا ہے. اور عورت اس کی توجہ حاصل کرنے کیلئے خود کو اس کے سامنے پیش کرنے میں گریز نہیں کرتی. عورت سمجھتی ہے مجھے عزت، رتبہ، مقام تب ہی ملے گا جب میرا حسن لوگوں پر عیاں ہو گا. مگر افسوس! جس عزت کو حاصل کرنے کیلئے وہ مرد کے سامنے شادی سے پہلے ہی خود کو پیش کر بیٹھتی ہے اس مرد کو کیا ضرورت کہ وہ اسے اپنی عزت بناتا پھرے. غیرت مند مرد کبھی یہ برداشت نہیں کرتا کہ اس کی بیوی پر کسی غیر کی نظر بھی پڑے. شادی سے پہلے سب کو ماڈرن اور فیشن ایبل خاتون چاہیے ہوتی. لیکن شادی کے بعد اسی عورت سے مطالبہ کیا جاتا گھر سنبھالے، پردے میں رہے. یہ کیسے ہو سکتا. اس لیے خود کو تماشا مت بنائیں. حیا والی عورتیں ہمیشہ بارعب، با عزت، پر سکون رہتی ہیں.
اب آگے ہوا کچھ یوں کہ جوانی کا شباب چڑھا. زندگی کے حسین دن تھے. اور محبت کرنے والا شخص بھی مل چکا تھا اسے. لیکن جب بات آئی شادی کی تو صاف انکار کر دیا گیا۔تب اسے محسوس ہوا کہ یہ عزت نہیں تھی، یہ تو منہ پر بے عزتی کا تمانچہ پڑا ہے۔
اس کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے :
“تم جیسی لڑکیاں صرف دل بہلانے کیلئے ہی ہوتی. تم خاک کسی کے گھر کی عزت بنو گی. تمہیں کیا معلوم کتنے لڑکوں تک تمہاری تصویریں پہنچ چکی اور کتنے اور تمہیں ٹائم پاس کھلونا سمجھ کر استعمال کرنے کیلئے نگاہیں لگائے بیٹھے ہیں میری طرح۔۔۔۔تم بے حیا عورت ہو. اگر اتنی عزت والی ہوتی تو کم از کم اپنی چادر کا خیال کرتی.”
یہ الفاظ اس کے کان میں بار بار گونج رہے تھے
.” تم بے حیا عورت ہو”
وہ اسی سوچ میں مگن تھی کہ آئینے کے سامنے اپنے منہ پر ایک طمانچہ دے مارا اور خود سے کہنے لگی : سہی کہا اس نے” تم واقعی بے حیا ہو” .
” یا اللہ! یہ میں نے کیا کر دیا. یہ مجھ سے کیا ہو گیا. اللہ میں تیری ہی بندی، تیری ہی بنائی ہوئی زمین پر، تیرے ہی دئیے حسن پر اتنا اترا بیٹھی. اتنی بے باک اور نڈر ہوگئی کہ تجھے بھول گئی تیرے احکام نظر انداز کرتی رہی.”
وہ چیخ رہی تھی.
شرمندگی سے سر جھکا تھا اور وہ پاگلوں کی طرح خود کو مار رہی تھی.
“یہ تو نے کیا کیا…”
” تیری اوقات ہی کیا ہے. تو نے حیا کا دامن خود بھی چھوڑا اور دوسروں کو بھی دعوت دی.
تو بے حیائی کی وجہ بنتی رہی. ناجانے کتنے لوگوں کی بے حیائی کی وجہ تو بنی تو نے شر پھیلایا. تو نے بے حیائی پھیلائی” .
اس کیلئے یہ غم موت سے بڑھ کر تھا. کہ میں اتنا عرصہ بے حیائی پھیلاتی رہی.
“لعنت ہو تیرے حسن پر، جوانی پر اگر یہ خدا کی زمین پر شر پھیلانے کا ذریعہ بنا.”
آج اس کا ضمیر جاگ چکا تھا مگر افسوس! ہوش آتی تب ہے جب کچھ بچا نہ ہو.
وہ اٹھی اور جائے نماز پر جا بیٹھی اور ہاتھ اٹھا کر اللہ سے
استغفار کرنے لگی.
اور وہ کتنا حسین منظر ہوتا ہے جب رب کا بندہ اپنے رب کے پاس عاجزی سے واپس آ جائے. اور اس کے رب نے یہی چاہا تھا اور وہ واپس آ چکی تھی.
حیا تو انسانی فطرت میں رکھی گئی ہے. ایک ننھا سا بچہ بھی کسی کے سامنے بے پردہ ہونے سے شرم کرتا ہے. مگر افسوس وہی ننھا بچہ بڑا ہو کر حیا کا دامن کیوں چھوڑ دیتا ہے۔
انسان ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو. وہ آزاد رہے. اسی لیے جو اس کے راستے میں آئے وہ اسے بالکل اچھا نہیں لگتا. اگر اس کا اپنا ضمیر بھی اس کی مزاحمت کرے تو وہ اپنے آپ کا بھی دشمن بن جاتا ہے. صرف اعلٰی ظرف لوگ ہی سنبھل پاتے ہیں ورنہ اکثر بہک جاتے ہیں.” جیسے میں بہک گئی.”
وہ اپنے ہاسٹل کے صحن میں بیٹھی تمام لڑکیوں کے سامنے کھڑی مکمل پردے میں ملبوس ندامت بھرے لہجے میں اپنی کہانی سنا رہی تھی. وہ کہہ رہی تھی.
“حجاب ایک مومن مسلمان عورت کیلئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے.”
وہ مر تو سکتی ہے مگر اپنی عزت کا سمجھوتہ کرنا گوارا نہیں کرتی.
جس چیز سے آشنائی ہو جائے اس کی قدر اتنی نہیں رہتی. جو چیز جب تک چھپی رہتی ہے تب تک اس کا بھرم باقی رہتا ہے مگر جب اس کا پردہ اٹھا دیا جائے تو اس کی قدر یا تو کی ہی نہیں جاتی اور اگر کی جاتی ہے صرف دل بہلانے کیلئے. اس کی اہمیت اتنی نہیں رہتی.
“حجاب زندگی ہے. زندگی حجاب میں ہے” .
زیب و زینت بھی عورت کیلئے ہی ہے مگر عورت کا اصل زیور جو اس کو سب سے منفرد بنا دیتا ہے وہ حیا ہے. حیا باقی رہے تو سب باقی ہے اور اگر حیا جاتی رہے تو سب چلا گیا.
حیا حجاب میں ہے.نقاب میں ہے اور حجاب حیا میں ہے. حیا خیر لاتی ہے.
مگر افسوس! ہم حجاب تو کر لیتی ہیں مگر حیا کا دامن ساتھ نہیں رکھتی. آج کا حجاب دیکھ کر ہمارے بڑے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ” آج کا حجاب فیشن ہے.” یہ ان ماؤں کا جملہ ہے جن کی بیٹیاں حجاب تو کرتی ہیں مگر حیا باقی نہیں.
فیشن عریاں ہو جانا نہیں بلکہ یہ تو جہالت ہے. یہ تو پرانے زمانے کا طرز عمل ہے. پردہ اور حجاب ، جدید تھا، جدید ہے اور ہمیشہ جدید رہے گا. اگر اس کا مقصد اور نیت اپنی خوبصورتی کو ظاہر کرنا نہ ہو.
خوب صورتی وہی ہے جو خود ظاہر ہو جائے.
آپ جتنے سادہ ہو اتنے ہی نفیس اور اصلی ہو. بناوٹی چیزیں اکثر بے جان ہوا کرتی ہیں.
با حجاب بنو، دیکھنا مطمئن ہو جاؤ گی. پر سکون رہنے لگو گی.
کیونکہ تم اللہ کو راضی کرنے میں مگن ہو جاؤ گی. دنیا کیا کہتی ہے، کیا سوچتی ہے، کیا چاہتی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا.
اس کے ہاتھ میں “نقوش سدرہ جمال” کتاب تھی جس میں ڈاکٹر احمد رفیق لکھتے ہیں :
نفس کبھی مرتا نہیں ہے ہاں مگر مہذب ہو سکتا ہے. جبلت صرف تب ہی قابو کی جا سکتی ہے جب اس پر خدا کی محبت غالب آجائے. خدا کا خوف وہ نہیں جو لوگ سمجھتے ہیں. خدا کا سب سے بڑا خوف تو اس کی محبت کی جدائی ہے. جو اللہ سے محبت کرتا ہے اسے ہر اس چیز سے خوف محسوس ہوتا ہے جو اسے اللہ سے دور کر دے اسے کہتے ہیں “خشیت الٰہی”
اس کی آنکھوں سے آنسو روا تھے. وہ دنیا کی محبتوں اور عزتوں کو بٹورنے کیلئے محنت کرتی رہی مگر ایک بار بھی یہ نہیں سوچا :
و تعز من تشا و تذل من تشا
وہی وقت جو اسے لگتا تھا بہت زیادہ ہے اب اسے بہت قلیل لگ رہا تھا اسے بس اللہ کی محبت کو حاصل کرنا تھا اسے بس اللہ کو راضی کرنا تھا.
وہ حالت اضطراب میں بس ایک ہی بات کہے جا رہی تھی :
وقت بہت تھوڑا ہے، وقت بہت تھوڑا.